عبدالمعین عبدالوہاب
ندوۃ السنۃ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی
اٹوا بازار، سدھارتھ نگر
9628550090
مکہ مکرمہ ام القری ہے باقی تمام بستیاں اس کے تابع ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کی شرف وعظمت کے پیش نظر ہی اس کے قسم کھائی ہے، فرمایا! لا اقسم بھذا البلد‘‘ اور دوسری جگہ فرمایا: وھذا البلد الامین‘‘ وہاں کی مسجد حرام اشرف ترین مساجد میں سے ایک ہے ، روئے زمین پر سب سے پہلا اللہ کا گھر مسجد حرام ہے، بابرکت ہے، لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ ہے، ’’ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃمبارکا وھدی للعالمین‘‘ ابوذر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا اے اللہ کے رسول روئے زمین پر سب سے پہلے کس مسجدکی بنیاد ڈالی گئی آپ نے فرمایا! المسجد الحرام میں پوچھا پھر کون؟ آپ نے فرمایا مسجد اقصی۔ متفق علیہ۔
مکہ سے ہمارے رسولﷺ کو خاص الفت ومحبت تھی، آپ جب وہاں سے نکالے گئے تو دعاکیاتھا: اللھم حبب الینا المدینۃ کما حببت مکہ او اشد‘‘ متفق علیہ۔
مکہ بلد امین ہے: ابراہیم علیہ السلام کی دعاتھی: رب اجعل ہذا بلداً آمناً (البقرۃ:۱۲۶) زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت ہی سے اللہ نے اسے حرم بنایا: آپﷺ فرماتے ہیں: ان اللہ حرم مکہ یوم خلق السمٰوٰت والارض فھی حرام بحرام اللہ الی یوم القیامۃ‘‘ رواہ البخاری۔
مکہ مکرمہ کی اس عظمت وفضیلت کے پیش نظر اللہ نے حج جیسی عظیم عبادت کو اسی جگہ اور اسی مسجد سے مربوط کیا، چنانچہ حج کو ہر مستطیع پر سال میں ایک مرتبہ واجب ٹھہرایا، چنانچہ دیکھاگیا کہ سال 2024میں گذشتہ سالوں کی طرحندائے ابراہیمی پر لبیک کہتے ہوئے حجاج کرام کے قافلے جوق در جوق مکہ مکرمہ کی طرف رواں دواں ہوئے، حج 2024 کی تیاری پورے شباب پر تھی،حجاج کرام کے استقبال میں سعودی عرب کی مختلف وزارتیں مامور تھیں، اسلام کے پانچویں رکن کی ادائیگی کے لئے چہار عالم سے تشریف فرما مہمان رب کریم کے لئے ساری سہولیات میسر تھیں، اتنی بڑی بھیڑ اور حجاج کی اتنی بڑی تعداد کے لئے یبک وقت سارے ارکان حج کی ادائیگی کو منظم ومربوط کرنا کوئی آسان کام نہیں، یہ محض اللہ کی توفیق ہوتی ہے، اور یہ توفیق اللہ تعالی اپنے ان بندوں کو عطا کرتا ہے جو اس کی توحید کو حقیقی معنوں میں قائم کرتے ہیں اور اللہ کے بندوں کو اس حقیقی توحید کی جانب دعوت دیتے ہیں، حج کا پیغام بھی یہی ہے ، یہاں رب کے حکم کی تعمیل کی جاتی ہے ، یہاں کلمہ توحید کی گواہی دی جاتی ہے، یہاں رب کے الوہیت کے اقرار کے مناظر ملتے ہیں، ارکان حج میں سے ہر عمل رب کی توحید کی دعوت کی بین وواضح دلیل ہے۔سعودی حکومت کی سب سے بڑی خوبی بھی یہی ہے کہ اس کی بنیاد توحید پر قائم ہوئی، اس کا سبز ولہراتا جھنڈا بھی کلمہ توحید کو منقش کئے ہوئے بلند ہوتا ہے، پورے عالم میں یہ واحد جھنڈا ہے جو توحیدی کلمات پر مشتمل ہے، یہی وجوہات ہیں کہ اللہ سبحانہ کی خاص عنایت ہوتی ہے کہ حج جیسی عظیم وپر مشقت عبادت کو 1833164 (اٹھارہ لاکھ تینتیس ہزار ایک سو چونسٹھ ) افراد مکمل سکون واطمینان کے ساتھ پر امن ماحول میں ادا کر لیتے ہیں، واضح رہے کہ مذکورہ تعداد امسال حج کا فریضہ ادا کرنے والے حجاج کرام کی مجموعی تعداد ہے، جن میں غیر ممالک سے آنے والے حجاج کرام کی تعداد 1611310 (سولہ لاکھ گیارہ ہزار تین سو دس ) ہے جبکہ اندرون مملکت سے حج کے لئے تشریف لانے حجاج کرام کی مجموعی تعداد 221854 (دو لاکھ اکیس ہزار آٹھ سو چون ) ہے ، سعودی عرب نے غیر ممالک سے آنے والے حجاج کرام کے لئے اپنے فضائی، بری اور بحری راستوں کو کھول دیا ، حجاج کرام نے اپنی سہولت کے اعتبار سے ان میں جس راستے کو مناسب سمجھا اختیار کیا، حجاج کی سب سے تعداد فضائی راستے سے سعودی عرب پہونچی، بذریعہ ہوائی جہاز پہنچنے والے حجاج کرام کی کل تعداد 1546345 پندرہ لاکھ چھیالیس ہزار تین سو پینتالیس ہے، جبکہ بذریعہ کار وبس مختلف منافذ اور باڈر سے گزر کر بری راستوں کو اختیار کرنے والے حجاج کرام کی 60251 ساٹھ ہزار دو سو اکاون ہے ، 4714 چار ہزار سات سو چودہ افراد پر مشتمل حجاج کرام کی ایک قلیل تعداد نے سمندری راستے سے مملکت میں داخل ہو کر فریضہ حج کو ادا کیا۔ سعودی عرب کی جانب سے ان کے لئے مختلف سہولیات فراہم کی گئیں ،جن میں جابجا طبی مراکز، نقل وحرکت کی اعلی سہولیات، دینی مسائل کی جانکاری کے لئے مختلف زبانوں میں علماء ومترجمین کی تعیین، کسی بھی ناگہانی حالات سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت تیار فورسز، مناسک حج منی وعرفات ومزدلفہ اور مکہ مکرمہ میں حجاج کی سہولت کے لئے ٹریفک کنٹرول کا اعلی نظم قابل ذکر ہیں، خدمات اس قدر وسیع اور منتوع ہیں کہ ان کا کلی احاطہ ممکن نہیں۔ہاں یہ ضرور ہواکہ گرمی کی شدت کی وجہ سے اس سال حجاج کرام کو کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، در اصل آب وہوا کی تبدیلی ، موسم کا اختلاف اور حج کے ایام کی محنتیں اور بھاگ دوڑ یہ سب چیزیں ایک اچھے بھلے انسان کو چند دنوں کے لئے بیمار تو نہیں لیکن بیمار جیسا بنا دیتی ہیں۔موسم کی تبدیلی تو ہمیں ہمارے ملک میں گھر میں رہتے ہوئے بیمار کر دیتی ہے۔ ایک انسان جب اپنے ہی ملک میں ایک مقام سے دوسرے مقام پر جاتا ہے تو وہاں ایڈجسٹ ہونے میں ٹائم لگ جاتا ہے۔ غیر معتاد بھاگ دوڑ تو آدمی کو تھکا ہی دیتی ہے اور یہ بھاگ دوڑ جب حج کے مناسک کی ادائیگی کی ہو تو پھر طبیعت کا مختلف ہونا اور مختلف وقتی عوارض میں مبتلا ہونا ایک عام سے بات ہے جو مرور ایام کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے اور سارے عوارض اللہ کے فضل سے زائل ہوجاتے ہیں۔ مگر چونکہ حجاج کرام اس ماحول سے ناآشنا اور بہت ساری سہولیات سے ناواقف ہوتے ہیں کبھی زبان کا مسئلہ بھی آڑے آجاتا ہے اس لئے گھبرا جاتے اور پریشان ہوجاتے ہیں، مزید برآں سعودی حکومت کی جانب سے دی گئی سہولیات سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے، لیکن الحمد للہ اکثر وبیشتر حجاج کرام فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے امسال 2024میں حج بیت اللہ کے دوران تقریبا ایک ہزار حجاج کرام کی وفات منی، عرفات اور مزدلفہ میں ہوگئی، ان اموات پر دنیا بھر میں کہرام مچ گیا، ہاہا کار مچ گئی، میڈیا نے اس مدعے کو سر پر اٹھالیا، لوگ قصور کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، اپنے اپنے فہم کے مطابق لوگوں نے بیانات دئے، مضامین لکھے، بہتوں نے دل کی بھڑاس نکالی، بعضوں نے اس کو الگ ہی رنگ دینا چاہا۔
حالانکہ اس سال حج میں جس طرح انتظامات کئے گئے تھے اس سے تحریکیوں کا قلب و جگر اور چشم و دیدہ پھٹا رہ گیا، مارے حسد کے ایسے جلنے لگے کہ کوئلہ بھی خوشی منانے لگا، کچھ تحریکی علما نے حج سے قبل فتوی دیا کہ حج کیلئے تصریح کی کوئی ضرورت نہیں، جو چاہے حج کرے، اس قسم کے فتوی سے حج کے انتظامات میں بد امنی پیدا کرنا مقصود تھا، کیونکہ مشاعر مقدسہ کی ایک شرعی حد ہے جس میں ایک محدود تعداد ہی رہ سکتی ہے، جیسے مشعر منی طول میں جمرہ عقبہ کبری سے وادی محسر تک تقریباً پانچ کیلو میٹر اور عرض میں جبل ثبیر سے جبل صایح تک تقریبا تین کیلو میٹر ہے، اسی چوہدی میں تقریبا تیس لاکھ سے زائد لوگوں کو تین دن رہنا ہے، اور یہ تیس لاکھ تعداد تصریح (permit) والی ہوتی ہے، اگر بلا تصریح والے حاجی کی تعداد اسی جگہ پر دس لاکھ زیادہ ہو جائے تو سوچیں کہ بھیڑ کا کیا عالم ہوگا…
پھر بھی ایسے حسین انتظامات تھے کہ بھیڑ کہیں بھی اکھٹی نہیں ہوئی اور نہ ہی لوگوں کو کوئی دقت ہوئی، اور نہ ہی بھیڑ کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا۔
امسال تقریبا دو ملین کے قریب لوگوں نے حج کیااور اس مرتبہ گرمی کی شدت بھی اپنے شباب پر تھی ایسے میں کچھ جانی نقصان ہونایا کچھ لوگوں کا کچھ دیر کے لئے گم ہوجانا زیادہ حیرتناک نہیں ہے۔پھربھی مسلمانوں کے بعض طبقات میں اس بات پر سعودی حکومت کو کوسا جارہا ہے اور بدانتظامی کی شکایت کی جارہی ہے۔
پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ دوران حج وفات پانا ایک بڑی سعادت ، باعث اجروثواب اور حسن خاتمہ کی علامت ہے ، ایمان والے ایسی موت کی تمنا کرتے ہیں۔ میدان عرفات میں سواری سے گر کر ایک صحابی کی موت ہوگئی تو آپ نے ان کے تعلق سے ارشاد فرمایا: پانی اور بیری کے پتوں سے اسے غسل دو اوراحرام ہی کے دو کپڑوں کا کفن دو لیکن خوشبو نہ لگانا نہ اس کا سر چھپانا کیوں کہ اللہ تعالیٰ قیامت میں اسے لبیک کہتے ہوئے اٹھائے گا۔
پھر موت کا ایک وقت مقرر ہے، جب وقت آجائے گا دنیا بھر کی مشینیں روک نہیں سکتی ہیں، اذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون۔ اور جس حالت میں موت مقدر ہے اسی حالت میں آئے گی آپ کسی بھی محل، قلعہ، مکان میں چھپ جائیں اینما تکونوا یدرککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدہ۔ کسی کو بھی موت سے رستگاری نہیں ہے’’ کل نفس ذائقۃالموت۔ ہر چیز پر فنائیت طاری ہونی ہے کل من علیہا فان۔
تو اتنا واویلا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، حج وعمرہ کی دعا میں ایک جملہ ہے کہ "یسرہا لی” یعنی اس کو میرے لئے آسان کر دیجیے، گویا یہ واقعی مشکل ترین مرحلہ ہے اس مرحلہ میں قدم قدم پر پریشانیاں ہیں ہمیں اپنے رب سے ان ہی پریشانیوں سے محفوظ ومامون رہنے کی دعا کرنی چاہیے۔ اور کسی کا قصور نکالنے کے بجائے الھی نظام اور تقدیر پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ دوران حج کسی کا انتقال ہوجائے تو وہ شہادت ہوگی یا نہیں؟ بظاہر یہی ہے کہ وہ شہادت نہیں ہے لیکن اس پہلو پر ضرور دھیان دیجیے کہ اللہ تعالی کے ایک فرض کی ادائیگی کے لئے جانے والا بندہ حالت احرام میں، ارض حرم میں فوت ہوا ہے جو کل قیامت کے دن حالت احرام میں ہی تلبیہ پڑھتا ہوا اٹھایا جائے گا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ومن یھاجر فی سبیل اللہ یجد فی الارض مراغما کثیرا وسعۃ ومن یخرج من بیتہ مھاجرا الی اللہ ورسولہ ثم یدرکہ الموت فقد وقع أجرہ علی اللہ (النساء)
حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ”جو اس سمت حج یا عمرہ کرنے نکلا پھرراستے میں ہی مرگیاتواس سے کوئی سوال نہ کیاجائے گا اورنہ ہی اس کا حساب ہوگا اور اس سے کہاجائے گا کہ جنت میں داخل ہوجا۔”
حضرتِ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے فرمایا، ”جو حج کے لئے مکہ کے راستے میں آتے یا جاتے ہوئے مرگیا اس سے نہ تو کوئی سوال ہوگا اور نہ ہی اس سے حساب لیاجائے گا اور اس کی مغفرت کردی جائے گی۔
واضح رہے کہ تمام ممالک کے حجاج کیلئے ہر جگہ بہترین انتظام ہوتا ہے سوائے ہند و پاک کے حجاج کے، اور جس طرح تمام ممالک والے اپنے یہاں کی حج کمیٹی کو لاکھوں روپے دیتے ہیں اسی طرح ہند و پاک کے حجاج بھی اپنی اپنی حج کمیٹی کو لاکھوں روپے دیتے ہیں، ہر ممالک کی حج کمیٹی اعلی اور عمدہ انتظام کرتی ہے جبکہ ہند و پاک کی حج کمیٹی اس انتظام میں ناکام رہتی ہے…
سعودی عرب کی حکومت کا انتظام سو فیصدی ہوتا ہے، تاہم جو ذمہ داری ہندو پاک کی حج کمیٹی پر تھی اس میں وہ ناکام رہی، سو حج کمیٹی کی ناکامیوں کا پردہ چاک کیا جائے، ان سے حساب مانگا جائے، حجاج کے پیسے پر آنے والے معلمینِ حجاج کا محاسبہ کیا جائے..
جب آپ اپنا مال اپنی حج کمیٹی کو دیتے ہیں تو پھر سوال سعودی عرب سے کیسے کرتے ہیں؟
ہاں اگر سعودی عرب نے آپ سے پیسے لے کر آپ کے انتظامات میں کچھ کمی کی ہو تو پھر سوال کرنے کا آپ کو حق ہے…
اب رہی بات گرمی کی شدت سے مرنے والوں کی تو گرمی ایسی چیز ہے جس پر اللہ رب العالمین کا کنٹرول ہے، سعودی حکومت کا کنٹرول نہیں، اس کے باوجود سعودی حکومت نے حج کی تمام کمپنیوں کو با خبر کیا کہ رمی جمار کیلئے 11 بجے دن سے لے کر 4 بجے تک کوئی بھی نہ نکلے، راستے بھی بند کر دئے اس کے با وجود اگر کوئی نکلتا ہے تو پھر وہ خود ذمہ دار ہے۔
آئیے امسال کے حج سے کچھ سبق لیتے ہیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں تاکہ آئندہ ہمارے لئے آسانی رہے۔
٭جو لوگ معمروضعیف ہیں ، جسمانی طور پر سفر کرنے اورمناسک حج ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ایسے لوگ قطعا حج پر نہ آئیں وہ اپنا حج دوسرے سے کروالیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جن لوگوں پر حج جوانی میں ہی فرض ہوجاتا ہے اور بڑھاپے میں حج کرتے ہیں وہ حج کی ادائیگی میں غفلت برتتے ہیں انہیں چاہئے کہ جب حج فرض ہوجائے بلاتاخیر حج کریں۔
٭حج ایک فریضہ ہے یہ اس کے اوپر فرض ہے جو حج کرنے کی مالی اور جسمانی طاقت رکھتا ہے لہذا آپ اسی وقت حج کریں جب دونوں حیثیت سے استطاعت حاصل ہو۔ اور پرمٹ حاصل کئے بغیرحج نہ کریں چاہے آپ سعودی میں رہتے ہوں یا سعودی عرب سے باہر۔
٭حج کرنے کے لئے حج کی تعلیم بہت ضروری ہے ، بسا اوقات عدم واقفیت اور لوگوں کی دیکھا دیکھی خود سیخود کو نقصان پہنچتا ہے۔ حج میں الحمد للہ بہت ساری سہولیات اور آسانیاں بھی ہیں ، بوقت ضرورت سہولت پر عمل کرنے میں عافیت ہے مثلا مریض کے لئے یوم النحر کی رمی کیلئے آدھی رات کے بعد مزدلفہ سے جمرات کی طرف جانا، عذر کے وقت رمی جمار کے لئے دوسرے کو وکیل بنانا، دوپہر کے وقت رمی باعث مشقت ہو تو عصر کے بعدرمی کرنا حتی کہ مجبوری میں مغرب یا عشاء کے بعد بھی رمی کرسکتے ہیں۔یوم النحر کو طواف افاضہ نہ کرسکیں تو ایام تشریق کے لئے موخر کرلینا اور طواف وداع سے پہلے بھی وقت نہ ملے تو ایک طواف میں طواف افاضہ اور طواف وداع کی نیت کرسکتے ہیں۔چل کر طواف وسعی کرنے کی طاقت نہ ہو تو گاڑی کے ذریعہ طواف وسعی کرلینا۔ ان سہولتوں کا ہمیں علم ہونا چاہئے۔
٭حج کی ادائیگی میں آپ کے لئے جن سہولت کی اجازت ہے اور جن حفاظتی اقدامات کی طرف حکومت توجہ دلاتی ہے ان سب باتوں کو عمل میں لانا جیسے عمل کے مناسب اوقات ، چھتری، ماسک، پانی ، دوا اور حاجت کی دیگر چیزیں وغیرہ۔
٭ آپ سمجھتے ہیں کہ اکیلے حج پر جانے میں کسی قسم کا خدشہ ہے تو طاقتورمدد گار کا انتظام کرلیں تاکہ وہ ہرجگہ آپ کا ساتھ دے۔ کوئی ضروری نہیں ہے کہ آپ کسی کو پیسہ دے کر ہی حج کروائیں ، مختلف علاقوں سے حج پہ لوگ جاتے ہیں ان میں سیکوئی ساتھی چن لیں یا دوران حج ہی کسی جانکار کی معانت حاصل کریں۔
ان باتوں کے علاوہ مزید کچھ باتیں ایسی ہیں جن کی بھی اصلاح کی ضرورت ہے جیسے جب ہم حج کا پروگرام بناتے ہیں اور ہمارا حج کنفرم ہو جاتا ہے توگاؤں محلے میں اس دن سے لے کر حج سے واپسی تک ایسی ایسی رسم و رواج اور ایسے ایسے شہرت اور دکھاوا کے کام کرتے ہیں جو حج جیسی عبادت کے اخلاص میں رخنہ ڈالنے والے ہیں۔خدارا عبادت کو عبادت ہی رہنے دیں اسے شہرت وریا کا ذریعہ نہ بنائیں۔اسی طرح دوران حج تصویروویڈیوکے لئے موبائل اور کیمرے کا اس قدر استعمال ہوتا ہے گویا ہم عبادت کرنے نہیں ،لوگوں کو اپنا کام دکھانے آئے ہیں۔ ایسا حج اللہ کے یہاں مقبول نہیں ہے اس لئے حج میں سیلفی سے پرہیز کریں۔نیز حج کرنے والوں کے کچھ ایسے برے مناظر بھی سامنے آرہے ہیں جن سے حج اور شعائرمقدسہ کی بے حرمتی ہورہی ہیاور حج کی غلط تصویر لوگوں میں پہنچ رہی ہے اس لئے حج کے ذمہ داروں سے گزارش ہے کہ لوگوں کے دلوں میں حج کی اہمیت اور شعائرمقدسہ کی عظمت وہیبت بٹھائیں۔ آئیے ہم عزم کرتے ہیں کہ حج کے تحفظات اپنائیں گے، اپنی غلطیوں کی اصلاح کریں اور حرمین شریفین کی سلامتی کے لئے دعا اور دفاع کریں گے۔
کلی طور سے امسال کا حج پر امن طور پر گزر جانے پر سب سے پہلے ہم اللہ وحدہ لا شریک لہ کا شکر ادا کرتے ہیں ، پھر حکومت خادم الحرمین الشریفین کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، ساتھ ہی شکر گزار ہیں سعودی حکومت کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز کے ، نیز ان کے جواں سال ،جواں عزم،پر جوش، باہوش، باہمت ،حوصلہ مند بیٹے اورقیادت وسیادت میں اپنے داد کا ملک عبد العزیز کا عکس لئے ہوئے، ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان بن عبد العزیز آل سعود کے جنہوں نے اپنے ساری خارجی مصروفیات اور بیرونی دوروں کو بالا تر رکھتے ہوئے حج کے انتظامات کا بنفس نفیس جائزہ لیا، اس کی زمام کو سنبھالا۔ حج کمیٹی کے صدر امیر مکہ شہزادہ خالد الفیصل بھی شکر کے خصوصی مستحق ہیں جن کے زیر نگرانی حج کے تمام امور بحسن وخوبی اختتام کو پہنچے۔ اللہ ان تمام افراد کو بہترین صلہ عطا فرمائے جنہوں نے اس حج کی کامیابی میں اپنا رول ادا کیا اور ان کی ان خدمات کو ان کے لئے ذخیرۂ آخرت بنائے۔ آمین.