سعودی عرب:پیر کو جاری ہونے والے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق دوسری سہ ماہی میں سعودی شہریوں میں بے روزگاری کی شرح میں کمی جاری رہی جو گر کر سات اعشاریہ ایک فیصد تک رہ گئی۔ گذشتہ سہ ماہی یہ سات اعشاریہ چھے فیصد اور ایک سال پہلے کی اسی مدت میں آٹھ اعشاریہ پانچ فیصد تھی۔جنرل اتھارٹی برائے شماریات نے کہا کہ مجموعی طور پر بے روزگاری کی شرح بشمول غیر ملکی کارکنان دوسری سہ ماہی میں تین اعشاریہ تین فیصد تک گر گئی جو گذشتہ سال کی مدت میں چار اعشاریہ ایک فیصد تھی۔60 فیصد سے زیادہ سعودی شہریوں کی عمریں 30 سال سے کم ہیں اور ملازمتوں کی تخلیق بالخصوص نجی شعبے میں ولی عہد محمد بن سلمان کے ویژن 2030 کا ایک اہم نکتہ ہے جو معیشت کو متحرک کرنے اور اسے تیل کے علاوہ دیگر شعبوں کی شمولیت سے متنوع بنانا چاہتے ہیں۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پچانوے اعشاریہ پانچ فیصد بے روزگار سعودی شہری نجی شعبے میں ملازمت کی پیشکش قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بعض معاشرتی پابندیوں میں بتدریج نرمی کے ساتھ ساتھ محنت کش شعبے میں اصلاحات سے مزید خواتین کے افرادی قوت میں شامل ہونے کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔سعودی خواتین کی بے روزگاری دوسری سہ ماہی میں بارہ اعشاریہ آٹھ فیصد پر آگئی جو پہلی سہ ماہی میں چودہ اعشاریہ دو فیصد تھی۔ خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کی شرح پہلے ہی 2030 کے لیے مقرر کردہ 30 فیصد ہدف کو عبور کر چکی ہے۔ دوسری سہ ماہی میں یہ پینتیس اعشاریہ چار فیصد رہی۔تاہم سعودی شہریوں میں افرادی قوت کی شرکت کی مجموعی شرح 50 فیصد سے زیادہ بڑھنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے: یہ 2023 کی دوسری سہ ماہی کی طرح اس سال کی دوسری سہ ماہی میں پچاس اعشاریہ آٹھ فیصد رہی۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی حالیہ ملکی رپورٹ میں کہا، اگرچہ افرادی قوت کے شعبے میں اصلاحات ہنر مند کارکنان کی ضرورت پورا کر رہی ہیں پھر بھی "افرادی قوت کی شرکت میں اضافہ اور اجرت کا فرق کم کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔”