نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے کے فیصلے کے پیچھے سنگھ کی منشا ہی یہی تھی کہ اس ملک میں نفرت کی فصل اگانی ہے ۔گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کر کے مودی نے ناگپور کو یہ واضح پیغام دے دیا تھا کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں ۔اور سنگھ نے کارپوریٹ گھرانوں کی ایک فوج مودی کے حوالے کر دی تھی کہ ان کے خزانوں کا بھرپور استعمال کر کے ملک کا نقشہ تبدیل کر دو ۔آئین پر شبخون مارو اور مسلمانوں کا اس ملک میں جینا دوبھر کر دو ۔یہ بات اسی دن طئے ہو گئی تھی کہ اب اتر پردیش میں مسلمانوں کی خیر نہیں جب گورکھپور کے اس مٹھ پجاری کو لاکر اتر پردیش کا وزیر اعلی بنایا گیا تھا جس نے انتخابی ریلی کے دوران بھرے مجمعے میں کہا تھا کہ میں مری ہوئی مسلم عورتوں کو قبر سے نکال کر ان کی عصمت دری کرونگا اگر ہماری حکومت بنیگی ۔ اور گذشتہ آٹھ برس سے اتر پردیش میں جو ہو رہا ہے اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔آج مجھے یہ بات اس لئے دہرانی پڑی کہ ایک بار پھر اترپر دیش کی ایک خاتون ڈسٹرکٹ مجسٹریت نے مختار انصاری کے جنازے کی بھیڑ میں مختار انصاری کے بھائی اور سانسد افضال انصاری کو یہ دھمکی دی کہ اگر مختار انصاری کی قبر پر مٹی ڈالنے کی ہمت ان کے گھر والوں کے علاوہ کسی نے کی تو میں اس پر قانونی کارروائی کرونگی ۔ غازی پور کی اس ڈی ایم کے اندر نفرت کے شعلے اس لئے بھڑک رہے تھے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک مبینہ گینگسٹر کی موت کے بعد اس کے جنازے کو کندھا دینے والوں کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں پہنچ گئی تھی اور اتر پردیش کی انتظامیہ دفعہ 144 پر عمل کرانے میں بھی ناکام ثابت ہورہی تھی ۔اس جوگی بھکت خاتون آفیسر کے لئے یہ سب برداشت سے باہر تھا کہ ایک ایسا مبینہ ملزم جو بیس برس سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھا اس کے چاہنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کیسے ہو سکتی ہے ۔اور اس آفیسر کی جرات کو آکسیجن اس لئے بھی مل رہا تھا کہ اس ریاست کا وزیر اعلی جوگی ہے جس کی رگوں میں مسلمانوں سے نفرت خون بن کر دوڑتا ہے ۔یہ حوصلہ اسے اس لئے بھی ہوا کہ چند روز پہلے ہی ملک کے وزیر داخلہ کا ایک طویل انٹرویو نشر ہوا تھا جس میں ایک سوال کے جواب میں آئین و قانون کا محافظ وزیر مسلمانوں اور اسلام کا مذاق اڑاتے ہوئے اپنی جاہلیت کا ثبوت دیتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ بھارت میں اسلامی شریعت کی دہائی دینے والے صرف چار شادیوں میں ہی اسلامی شریعت کیوں چاہتے ہیں جب کہ وہ بینک سے سودی کاروبار بھی کرتے ہیں ،نوکری بھی کرتے ہیں اور بینک سے قرض بھی لیتے ہیں ۔یہاں وہ شریعت کی دہائی کیوں نہیں دیتے ہیں ۔اور کمال یہ ہے کہ موصوف جب یہ بے بنیاد الزام مسلمانوں اور اسلام پر لگا رہے تھے تب نہ تو آڈینس میں بیٹھے لوگوں میں سے کسی کی جرات ہوئی اور نہ ہی انٹرویو لینے والے اینکر کو ہی یہ حوصلہ ہوا کہوہ ان سے پوچھے کہ کیا بھارت میں اسلامی شریعت لاگو ہے ۔موصوف نے اپنے اس جاہلانہ بیان میں چوری کرنے والوں کا ہاتھ کاٹ فینے اور زنا کرنے والوں کو سنگسار کردینے کے اسلامی قانون کا بھی مذاق اڑایا ۔لیکن ان سے یہ سوال کسی نے نہیں کیا کہ کیا ان کی متبرک کتاب منو اسمرتی میں زانی شخص کے عضو تناسل کو کاٹ دینے کا قانون نہیں ہے ؟کیا ان کی منو اسمرتی میں زنا کرنے والی عورتوں کو کتے سے نچوا کر مار ڈالنے کی بات درج نہیں ہے ؟اور کیا اسی منو اسمرتی میں یہ درج نہیں ہے کہ ایسی سزا دیتے وقت اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ مجرم برہمن جاتی کا نہ ہو کیونکہ اس کے لئے ایسے سارے جرائم قابل معافی ہیں ۔زیادہ سے زیادہ سزا جو برہمن کو دی جا سکتی ہے وہ اس کے بال کو مونڈنے تک محدود ہے ۔
مجھے نہیں معلوم کہ ملک میں ایسے جاہل لوگوں کو جن کو اپنے دھارمک کتابوں کے بارے میں بھی علم نہ ہو کس طرح اس کی کمیونیٹی کے لوگ اپنا نیتا بنا لیتے ہیں ۔لیکن مجھے یہ کہنے سے کوئی نہیں روک سکتا کہ ایسے نفرتی کیچوؤں کے کیچڑ اچھالنے سے نہ تو اسلام کا کچھ نقصان ہوتا ہے اور نہ ہی مسلمانوں میں خوف پیدا ہوتا ہے ۔ہاں !اس سے مسلمانوں کو یہ سبق ضرور ملتا ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے وہ اشراف اور پسماندہ کی حد بندیوں کو توڑ کر متحد ہو جائیں اور کم از کم ان پارلیمانی سیٹوں پر یکطرفہ ووٹ این ڈی اے کے مقابلے انڈیا الائنس کے کسی لیڈر کے حق میں کریں جہاں ان کی تعداد اتنی ہے کہ وہ انہیں شکست دے سکتے ہیں ۔
یاد رکھیں کہ 2024کا انتخاب ان سارے مظالم کا بدلہ لینے کا آخری موقعہ ہے اور اس بار بھی اگر بھارت کے مسلمانوں نے متحد ہوکر اپنے آخری ہتھیار ووٹ کا استعمال سمجھ بوجھ کر نہیں کیا تو پھر وہ بھارت کے آئین ،اپنے اکابرین ،اپنی نسل اور اپنے سیکولر ہندوستان اور گنگا جمنی تہذیب سب کے بیک وقت غدار قرار دئے جائینگے ۔