نئی دہلی 8اگست ،شعیب رضافاطمی گروگرام میں فرقہ وارانہ تشدد اور دیگر واقعات کو لے کر سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی گئی ہے۔ گروگرام میں مسلمانوں کے بائیکاٹ اور مساجد کو بند کرنے کے لیے آواز اٹھانے کے خلاف دائر کی گئی اس درخواست میں ایسی باتیں کہنے والوں کے خلاف مناسب کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔سینئر وکیل کپل سبل نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کے سامنے عرضی پیش کی ہے۔ اس دوران کپل سبل نے گروگرام کے ان واقعات کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا جا رہا تھا کہ اقلیتی برادری کی دکانوں پر کام کرنے والوں کو بھی غدار کہا جائے گا۔ اس عرضی میں گروگرام کے فرقہ وارانہ فسادات کے علاوہ کئی ایسے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جو معاشرے میں امن کے نظام کو درہم برہم کر سکتے ہیں۔اس درخواست کے مطابق نوح میں تشدد کے بعد مختلف ریاستوں میں 27 ریلیاں نکالی گئی ہیں۔ ان ریلیوں کے دوران نفرت انگیز تقاریر کی گئیں اور مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کرنے اور ان کا سماجی اور معاشی بائیکاٹ کرنے کی باتیں کی گئیں۔ اس عرضی میں یکم اگست سے 7 اگست تک منعقد کی گئی مختلف ریلیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔اس پٹیشن میں کئی ویڈیوز اور ٹرانسکرپٹس کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ رہائشیوں اور دکانوں کے مالکان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کو ملازمت دیتے ہیں یا مسلم کمیونٹی کے افراد کو مکان کرایہ پر دیتے ہیں تو ان کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش میں مختلف مقامات پر ریلیاں نکالی گئیں۔اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی برادری کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور اس طرح کے جلسوں میں تشدد اور لوگوں کے قتل کی کھل کر بات کرنے سے پورے ملک میں فرقہ وارانہ امن کی فضا متاثر ہوتی ہے۔ اس درخواست میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ دہلی کے پولیس کمشنر، اتراکھنڈ کے ڈی جی پی، اتر پردیش کے ڈی جی پی، ہریانہ کے ڈی جی پی اور اس طرح کی دیگر اتھارٹی کو اس بات کو یقینی بنانے کا حکم دے کہ ریلیوں میں اس طرح کی نفرت انگیز تقریر کی اجازت نہ دی جائے۔ اسے روکا جانا چاہئے.