پیونگ یانگ (ہ س)۔روسی صدر ولادیمیر پوتین اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے درمیان پیونگ یانگ میں اعلیٰ سطحی بات چیت ہو رہی ہے۔روسی صدر پوتین چوبیس سال بعد پہلی مرتبہ شمالی کوریا آئے ہیں۔ پوتین کی کابینہ کے بیشتر ارکان روسی وفد کا حصہ ہیں، جو کم جونگ اْن کے ساتھ بات چیت کریں گے۔روسی صدر پوتین کا شمالی کوریا کا واحد سابقہ دورہ جولائی سن 2000 میں پہلی بار اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ہوا تھا۔ اس وقت کم جونگ ان کے والد کم جونگ ال ملک کے سربراہ تھے اور ملک 1990 کی دہائی میں شدید قحط سالی سے بمشکل ہی نکل پایا تھا۔لیکن موجودہ حکمران کم جونگ اْن نے گذشتہ سال روس کا ایک غیر معمولی دورہ کیا تھا، جس کے دوران انہوں نے اور پوتین نے خلائی ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں تعاون کے امکانات پر زور دیا تھا۔دارالحکومت پیونگ یانگ پہنچنے پر کم جونگ ان نے ان کا شاندار خیر مقدم کیا۔ بعد میں دونوں رہنماؤں کی اعلیٰ سطحی میٹنگ شروع ہوئی۔شمالی کوریا کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے سی این اے نے دونوں ملکوں کی شراکت داری کو "ایک نئی کثیر قطبی دنیا کی تعمیر میں تیز رفتاری کے لیے محرک” قرار دیتے ہوئے کہا کہ پوتین کے دورے سے باہمی تعلقات مزید مستحکم ہوئے ہیں۔کے سی این اے نے دونوں رہنماؤں کی ملاقات کو ایک تاریخی واقعہ قرار دیا جس سے شمالی کوریا اور روس کے درمیان دوستی اور اتحاد کی ”ناقابل تسخیر اور پائیداری” ظاہر ہوتی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات ”بین الاقوامی انصاف، امن اور سلامتی کے تحفظ اور ایک نئی کثیر قطبی دنیا کی تعمیر کو تیز کرنے کے لیے ایک مضبوط اسٹریٹجک قلعہ کے طور پر ابھرے ہیں ”۔روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ریا نووستی کے مطابق، پوتین نے کہا کہ روس، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی دہائیوں سے جاری ”تسلط پسندانہ اور سامراجی پالیسیوں” کے خلاف لڑ رہا ہے۔ انہوں نے یوکرین سمیت روسی پالیسی کے لیے شمالی کوریا کی طرف سے حمایت کے لیے کم کی تعریف کی۔خیال رہے کہ جب سے ماسکو نے یوکرین پر حملہ شروع کیا ہے، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید قربتیں آ رہی ہیں، اور یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ پیونگ یانگ روسی ٹیکنالوجی کے بدلے روس کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ حالانکہ دونوں ممالک اس کی تردید کرتے ہیں۔روس کی خبر رساں ایجنسی انٹرفیکس کے مطابق پوتین نے کہا کہ روس اور شمالی کوریا کے درمیان تعاون مساوات اور ایک دوسرے کے مفادات کے باہمی احترام کے اصولوں کی بنیاد پر قائم ہیں۔”پوتین نے "امریکی دباؤ، بلیک میل اور فوجی دھمکیوں” کے خلاف پیونگ یانگ کی حمایت کرنے کا بھی وعدہ کیا۔ روسی صدر نے کم جونگ ان کو روس آنے کی دعوت بھی دی۔خیال رہے کہ کم جونگ ان نے گذشتہ سال ستمبر میں روس کے مشرق بعید میں واقع واسٹوچنی کوسموڈرم میں پوتین سے ملاقات کی تھی۔پوتین نے ماسکو اور پیونگ یانگ کے درمیان تعلقات کی بنیاد کے لیے ایک "نئے بنیادی دستاویز” کا اعلان کیا۔ پوتین نے کہا، "گزشتہ سال روس کے آپ کے دورے کے نتیجے میں ہمارے باہمی تعلقات کی تعمیر میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور ہم نے ایک نیا بنیادی دستاویز تیار کیا ہے، جو طویل مدت کے لیے ہمارے تعلقات کی بنیاد بنے گا۔” انہوں نے کہا کہ ہم اس دستاویز کی تفصیلات سے آپ کو آگاہ کریں گے۔کم جونگ ان نے اپنی جوابی تقریر میں پوتین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اب خوشحالی کے ایک نئے دور "میں داخل ہورہے ہیں۔انہوں نے "دنیا میں اسٹریٹیجک توازن برقراررکھنے کے لیے” روس کے کردار کی تعریف کی اور یوکرین میں "خصوصی آپریشن” کے لیے حمایت کا اظہار کیا۔