شعیب رضا فاطمی
یہ گتھی کوئی بھی سیاسی مبصر آج تک نہیں سلجھا سکا کہ آخر موجودہ مرکزی سرکار کے سب سے بڑے لیڈر اور بقول خود دنیا ئے سیاست کے سب سے معتبر سیاستدان اپنے ملک کے ہر انتخاب میں گھوم پھر کر اکثریتی طبقہ کے مذہبی جذبات کی پناہ لینے پر کیوں آمادہ ہو جاتے ہیں؟ ۔9برس اقتدار میں رہنے کے بعد بھی انہیں کیوں اکثریتی طبقے کی آستھا کو مشتعل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ،آخر وہ ہر ایک الیکشن کے بعد دوسرے الیکشن میں جانے سے پہلے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ بالاخر ہمیں عوام کی بنیادی ضرورتوں کا خیال تو رکھنا ہی ہوگا ؟مودی جی کو کہیں نہ کہیں رک کر یہ سوچنا تو ہوگا کہ 80کروڑ لوگوں کو پانچ کیلو اناج دے کر وہ یہ کیونکر کہ سکتے ہیں کہ ملک خوشحال ہو چکا ہے ۔ سوشل میڈیا پر ایسی لاکھوں ویڈیوز آپ کو مل جائینگی جس میں گراؤنڈ رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں نے ملک کے الگ الگ حصوں میں بی جے پی پر اعتماد جتانے والوں سے جب ان کی اس دلیل پر کہ نریندر مودی نے ملک کو ترقی کے مینار پر کھڑا کر دیا ہے اور بین الاقوامی اسٹیج پر بھارت ساری دنیا کا لیڈر بن چکا ہے ،یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اتنے چمتکاری لیڈر کے پانچ ایسے کام بتائیں جس سے عام ہندوستانی عوام کی زندگی میں بڑی تبدیلی آئی ہو تو وہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ مودی جی سمیت ان کے تمام سپہ سالار جب انتخابی ریلیوں میں خطاب کرتے ہیں تو وہاں بھی وہ یا تو کانگریس کے خلاف مرثیہ پڑھتے نظر آتے ہیں یا پھر جھوٹے قصے اور کہانیاں سنا کر کانگریس کا مذاق اڑاتے ہیں ۔پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب میں بھی نریندر مودی جی نئے نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں ۔مدھیہ پردیش اور چھتیس گڈھ میں بھی یہی ہوا اور اب راجستھان اور تلنگانہ میں بی جے پی کے لیڈر بے پر کی اڑا رہے ہیں ۔راجستھان میں نریندر مودی کا طوفانی دورہ جاری ہے اور ہر عام جلسہ میں کانگریس کے خلاف ایسی ایسی مضحکہ خیز خبریں وہ سنا رہے ہیں کہ سننے والے بھی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر نریندر مودی جی ریاست کے عام لوگوں کو یہ کیوں نہیں بتا رہے ہیں کہ 9 برس میں انہوں نے اقتدار میں رہ کر عوامی فلاح وبہبود کے لئے کون کون سے کام کئے ۔اس کی جگہ نریندر مودی جی اپنے خطاب میں کانگریس کے صدر کی کانگریس کے ذریعہ کی جا رہی بے عزتی پر زیادہ فکر مند ہیں ۔ان کی تقریروں میں اس تکلیف کا اظہار بھی ہو رہا ہے کہ راجستھان کے دوسرے نمبر کے کانگریسی لیڈر سچن پائلٹ کو بھی کانگریس ہائی کمان ان کے مرحوم والد کے اس جرم کی پاداش میں سزا دے رہی ہے کہ مرحوم نے کانگریس اعلی کمان یعنی سونیا گاندھی کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کانگریس صدر کے لئے سونیا گاندھی کے علاوہ کسی اور لیڈر کا نام پیش کیا تھا ۔اور اس واقعہ کے راوی خود نریندر مودی کے علاوہ اور کوئی نہیں ۔ایک نہایت معتبر صحافی نے تو ہنستے ہوئے یہ بھی کہا کہ مودی جی جس واقعہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اس وقت سچن پائلٹ کے والد اور کانگریس کے سینئر لیڈر راجیش پائلٹ روڈ ایکسیڈنٹ میں فوت ہو چکے تھے ۔جہاں تک سوال سونیا گاندھی کا ہے ،یا گاندھی پریوار کا ہے تو آخری آخری وقت تک سچن پائلٹ کے رشتے اس پورے خانفان سے بہت اچھے رہے اور سونیا گاندھی ان کی بڑی قدر کرتی تھیں ۔لیکن نریندر مودی جی کو یہ باتیں اس لئے کہنی ہیں کہ راجستھان میں ان کے پاس کوئی ایسا ایشو نہیں ہے جس کے سہارے وہ گہلوت کو شکست دے سکیں اس لئے سچن پائلٹ کو بھڑکانے اور ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔کیا ایسی حرکت کی کسی وزیر اعظم سے توقع کی جا سکتی ہے ؟کی جا سکتی ہے اور صرف اور صرف نریندر مودی جی سے۔ کیونکہ ان کی معلومات کا ماخذ ناگپور یونیورسٹی ہے جہاں جھوٹ اور فریب کی کھیتی ہوتی ہے اور وہاں لکھی جانے والی تاریخ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہوتی ہے ۔لیکن ان سارے حربوں کے استعمال کے بعد بھی راجستھان میں جب بی جے پی کو امید کی کوئی کرن نظر نہیں آئی تو پھر ایک جلسے میں امت شاہ جی کو رام مندر کی یاد آئی اور پھر ان کی جان میں جان آئی ۔ان کی زبان بھی چلنے لگی اور عوام نے اس وقت تالیاں بھی بجائیں جب امت شاہ نے فرمایا
"کانگریس پارٹی ستر سال سے رام مندر تعمیر کو اٹکا رہی تھی ؟لٹکا رہی تھی ،بھٹکا رہی تھی ۔مودی جی نے 5اگست2019 کو رام مندر کے بھومی پوجن کا کام کیا۔راہل بابا طعنے لگاتے تھے کہ مندر وہیں بنائینگے تاریخ نہیں بتائینگے۔راہل بابا کان کھول کر سن لو ۔۔۔22جنوری کو دوپہر بارہ بجکر 22منٹ پر رام للا کی پران پرتشٹھا ہونے والی ہے ”
یعنی ایک بار پھر بی جے پی تین سو ساٹھ ڈگر گھوم کر رام مندر کے سایہ میں آ گئی ۔اور اسے نظر آنے لگا کہ اس کے علاوہ دوسرا کوئی ایسا مدعا نہیں ہے جس کے سائے میں اسے پناہ مل سکے ۔
اب دیکھنا ہے کہ مندر نرمان کے پرچار سے بھی اسے کس وفر کامیابی ملتی ہے ۔ایک طرح سے یہ ایک تجربہ بھی ہے ،اگر راجستھان میں یہ ایشو کامیابہوتا ہے تو پھر آنے والے عام انتخاب میں اسے اہم ایشو بنانے کی جو بی جے پی سوچ رہی ہے اسے اور زور شور سے کریگی ،اور یہ طئے ہے کہ وہ ایک بار پھر مندر کی تعمیر کا سہرا باندھ کر ملک کے عوام سے اس کی مزدوری مانگنے نکل پڑے ۔
اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بھارت کے سادہ لوح لوگ ایک بار پھر بی جے پی کو آستھا کے نام پر اپنا آشیرواد دے دیں ۔اور اس ملک کے جمہوری مزاج کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دیں ۔جدید بھارت کے بانی گاندھی نے کیا کبھی سوچا ہوگا کہ جس رام کا نام لے لے کر انہوں نے پوری زندگی گذاری ،جس رام کا نام لیتے لیتے ان کی آخری سانس نکلی، اسی رام کے نام پر ان کے ملک بھارت کی بنیاد کو بھی کھودنے کام کیا جائے گا ،اور جب یہ کام ہوگا اس وقت اس ملک کا ہیرو گوڈسے ہوگا اور ویلن گاندھی۔
ReplyForward |