9431414586
rm.meezan@gmail.com
عالمی صحت تنظیم نے چین میں کورونا کی موجودہ صورتحال کو پوری دنیا کے لئے تشویشناک بتایا ہے اور یہ خدشہ ظاہرکیا ہے کہ اگر بر وقت اس پر قابو نہیں پایا گیا تو گذشتہ برسوں میں کورونا نے جتناقہر برپا کیا ہے اس سے کہیں زیادہ کورونا کے اس نئے وائرس کے دائرے میں وسعت کے ساتھ ہی اموات میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوگا۔اس تنظیم نے چین پر اس بات کے لئے بھی دبائو بنانے کی کوشش کی ہے کہ وہ متاثرہ افراد کا صحیح اعداد وشمارپیش کرے تاکہ کوویڈ پر قابوپانے کے جتنے بھی اقدام ہو سکتے ہوں اسے انجام دیا جا سکے۔اس تنظیم کے ڈائرکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈ ہینو گیبریاسونے ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ اس کی وضاحت کی ہے کہ کوویڈ کی وباء کے وقت عالمی برادری کو یہ پتہ نہیں تھا کہ اس کے لئے کون سی دوا استعمال کی جائے گی لیکن کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک نے اس کے لئے ویکسین تیار کئے ہیں اور اس کے استعمال سے اس پر قابو بھی پایا گیاہے لیکن اس وقت چین کے بعد جاپان میں جس برق رفتاری سے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے اور لوگ اسپتالوں میں داخل ہو رہے ہیں اس سے یہ اندازہ ہو رہاہے کہ ویکسین کے اثرات یا تو ضائع ہو گئے ہیں یا کوئی کمی واقع ہوگئی ہے ۔ اپنے ملک ہندوستان میں بھی اس پر فکر مندی ظاہر کی جا رہی ہے ۔ مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر منسکھ مانڈویا نے بھی موجودہ صورتحال پر فکر مندی ظاہر کرتے ہوئے انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے ساتھ میٹنگ کی ہے اور احتیاطی احکامات بھی جاری کئے گئے ہیں ۔ ملک کی مختلف ریاستوں نے بھی اپنے طورپر اس موذی مرض سے بچنے کے لئے ماسک لگانے اور اجتماعی سرگرمیوں سے دور رہنے کی گذارش کی ہے۔
بہر کیف! اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ چین میں جس برق رفتاری سے کوویڈ کا وائرس پھیل رہا ہے وہ پوری دنیا کے لئے مضر ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ وائر س کا دائرہ کسی خاص خطے تک محدود نہیں رہتا ۔ ایک ملک سے دوسرے ملک کا رشتہ جب تک مکمل طورپر بند نہیں ہوتا اس وقت تک کسی نہ کسی طرح سے وائرس دوسرے ممالک تک رسائی حاصل کرلیتا ہے ۔ حال ہی میں چین سے آنے والے کئی افراد کی جانچ اپنے ملک میں ہوئی ہے اور وہ کوویڈ متاثر پائے گئے ہیں۔ اسی طرح جاپان اور سائوتھ کوریا جیسے ممالک میں بھی اس نے دستک دے دی ہے ۔ کوویڈ کی اس لہر نے پوری دنیا کو ایک بار پھر خوف وہراس سے ہمکنار کردیا ہے کہ ایک طرف طبی سہولیات کی کمیاں ان کے لئے ایک چیلنج ہے تو دوسری طرف اس مہلک بیماری کی وجہ سے معاشیات پر بھی اس کے گہرے اثرات ہوں گے۔ واضح ہو کہ گذشتہ دو سالوں میںکوویڈ کی وجہ سے عالمی معاشیات کو بڑا جھٹکالگا ہے ۔ اب جب کہ سنبھلنے کی کوشش کر رہے تھے تو ایک بار پھر کوویڈ کی دستک نے سب کے ہوش اڑادئیے ہیں ۔ ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ چین اورجاپان جیسے صنعتی ممالک دنیا کے دیگر ممالک کی تجارت کو متاثر کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے معاشیات کی حالت میں کبھی بہتری تو کبھی خستہ حالی نمودار ہوتی ہے ۔ خود چین کے جنوبی صنعتی شہر گوانگرو ں میں کورونا وائرس کی وجہ سے افراتفری کا ماحول ہے ۔ پہلی بار چین میں عوام نے کورونا وائرس کی پالیسی کے خلاف مظاہرہ کیا ہے اور لاک ڈائون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر اتر آئے ہیں ۔ وہاں کی پولیس کے ساتھ ان کی جھڑپوں کے کئی ویڈیو سامنے آئے ہیں جب کہ چین میں ذرائع ابلاغ پر حکومت کی مکمل پابندی ہے ۔ دراصل اقتصادی اعداد وشمار سے یہ خدشتہ بڑھتا جا رہاہے کہ اگر دنیا میں کورونا کی اس لہر نے قہر برپا کیا اور لاک ڈائون کی حالت پیدا ہوئی ، جیسا کہ امکان ہے تو صرف ترقی یافتہ ممالک ہی معاشی طورپر کمزور نہیں ہوں گے بلکہ ہندوستان جیسے دیگرترقی پذیرممالک کی معاشیات پراس کا گہرا اثر پڑے گا کیوں کہ یوکرین اور روس کی جنگ نے بھی عالمی اقتصادیات کو بڑا خسارہ پہنچایا ہے ۔ جہاںتک اپنے ملک ہندوستان کاسوال ہے تو یہاں کورونا کی وا پسی سے اقتصادیات کے شعبے میں خسارہ عظیم کا خدشہ ہے کیوںکہ ہمارے ملک میں چھوٹی چھوٹی صنعتوں کی بدولت ہی متوسط طبقے اور غریب مزدوروںکواجرت ملتی ہے اور اسی سے ان کے اخراجات پورے ہوتے ہیں ۔ اگر لاک ڈائون کی صورت پیدا ہوگی تو پھر یہ سبھی صنعتی ادارے بند ہوں گے اور مزدور طبقہ بیروزگار ہو جائے گا جس کی وجہ سے ان کی معیشت کمزور ہوگی اور قومی سطح پر بھی اس کے اثرات نمایاں ہوں گے۔ اگرچہ ہماری حکومت کورونا کی اس لہر کے تئیں سنجیدہ نظر آرہی ہے اور ہیلتھ سیکٹر میں سہولیات بڑھانے کی جی توڑ کوشش کر رہی ہے لیکن ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ اگر کورونا کا زور بڑھا تو ایک بار پھرہماری معیشت کو نقصان پہنچے گا ۔ کیوں کہ جب ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کی رفتارسست ہوگی تو ترقی پذیر ممالک پر بھی اس کے اثرات ہوں گے ۔ حالیہ اعداد وشمار سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ چین جیسے صنعتی ممالک میں معیشت کی رفتارکم ہوئی ہے جس کی وجہ سے عالمی کساد بازاری کا خدشہ مزید بڑھ گیا ہے ۔ واضح ہو کہ چین نے 5.5فیصد سالانہ اقتصادی ترقی کا ہدف طے کیا تھا لیکن اب یہ ممکن نہیں ہے ۔ اسی طرح دیگر ممالک امریکہ، برطانیہ مہنگائی سے نبرد آزما ہیں اور کئی مغربی ممالک بھی ان مسائل سے دوچار ہیں ۔ ہندوستان جیسے ترقی پذیرملک کی معیشت بھی اس سے متاثر ہوگی کہ ہماری معیشت کا استحکام گھریلو اور چھوٹی صنعتوں کے ساتھ ساتھ زراعت پر مبنی صنعتوں پر منحصر کرتی ہے ۔ اگر کورونا کی وجہ سے لاک ڈائون جیسی صورتحال بنی تو یہ سبھی سیکٹر متاثر ہوں گے اوردیگر مینوفیکچرنگ کے شعبے کی رفتار بھی سست ہوگی جس سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچے گا اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایک طرف صحت کے شعبے میں یقینی صورتحال پیدا کرنے کے اقدام کرے اور لاک ڈائون جیسی صورتحال سے پرہیز کرے تاکہ متوسط طبقہ معاشی کمزوریوں کا شکار نہ ہوسکے کیوں کہ اس وقت ریئل اسٹیٹ جیسے بڑے سیکٹر میں پہلے سے ہی گراوٹ دیکھی جا رہی ہے ۔روزگار کے مواقع کم ہیں ایسی صورت میں اگر کورونا نے اپنا پائوں پھیلایا تو صورتحال مزید تشویشناک ہو سکتی ہے۔ حال ہی میں انڈیا انٹر نیٹ گورنینس فورم 2022کے اختتامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ہمارے وزیر مملکت راجیو چندر شیکھر نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہندوستان الکٹرونکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے شعبے میں ہنر مندی کے معاملے میں آٹھ سو میلین سے زیادہ براڈ بینڈ صارفین کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا کنکٹنگ ملک بن گیاہے ۔ ظاہرہے کہ اس شعبے نے بھی ہماری معاشیات کو مضبوط کیا ہے۔ ظاہر ہے اگر کورونا سے دستک دی تو یہ شعبہ بھی متاثر ہوگا اور اس سے بھی ہماری معیشت کو نقصان پہنچے گا ۔ اس لئے عالمی برادری اوربالخصوص ہندوستان کے لئے کورونا کی یہ لہر بہت ہی مضر ثابت ہو سکتی ہے کہ اس کی وجہ سے ہماری معیشت کا بنیادی ڈھانچہ متزلزل ہو جائے گا اور اس سے سنبھلنے میں کافی وقت لگے گا۔ شاید اس لئے ملک میں تمام بڑے صنعتی گھرانوں کو حکومت نے ممکنہ خدشات سے آگاہ کیا ہے اور ہر مورچے پر تیاری چل رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا یہ لائحہ عمل کس حد تک عملی صورت اختیار کرتا ہے اور خدانخواستہ اگر کورونا سے ہم دوچار ہوتے ہیں تو ایسے وقت میں ہم اپنے امتحان میں کیسے کامیاب ہو پاتے ہیں۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے ۔