وطن عزیز میں پچھلے کچھ سالوں کے دوران ہیٹ اسپیچ کے معاملوں کی جس طرح سے باڑھ آئی ،ویسی پہلے شاید ہی کبھی دیکھی گئی ہو ۔لیکن اس سے زیادہ بد قسمتی کی بات کیا ہوگی کہ بہت سے معاملوں میں نا تو مقدمہ درج کیا گیا ناہی ملزم کے خلاف کوئی کارروائی کے لئے قدم اٹھایا گیا اگر مقدمہ درج بھی کیا گیا تو جیل یا سزا بمشکل ہوئی !۔سیکولر اور انصاف پسند اور جمہوریت پسند طبقہ سر پٹخ کر رہ گیا لیکن ان لوگوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔اشتعال انگیز بیانوں سے نقصان کیا ہوگا ،اس کے نتائج سے شر پسند عناصر بخوبی واقف ہوتے ہیں ،ان کو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ایک تیر کتنے شکار کرتاہے۔اس طرح کے بیانات جاری کنے والوں اور ریمارکس دینے والوں کی فہرست معمولی نہیں ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ جن کے خلاف شکایت کی گئی ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ۔پرگیہ سنگھ ٹھاکر بھی ایک ایسی لیڈر ہیں جن کی زبان میان میں نہیں رہتی ۔ جب چاہتی ہیںایک کمیونٹی کیخلاف زہر اگل دیتی ہیں۔مالیگائوں بم دھماکہ معاملے میں پہلے وہ جیل میں تھیں لیکن انکو اب پارلیمنٹ کے رکن ہونے کا شرف حاصل ہے ،انہیں جیل سے نکال کر پارلیمنٹ کی رکنیت سے نوازا گیا تھا۔اب ان کے پاس ایک باوقار عہدہ ہے ،انہیں اس کا رتی برابر بھی پاس و لحاظ نہیں !اور اب بھی ان کی زہر افشانی جاری ہے ۔ غیر پارلیمانی زبان کے استعمال سے ان کو پرہیز نہیں !۔یاد رہے کہ حال ہی میں انہوںنے اپنے ایک تازہ تبصرہ میں اقلیتی طبقہ پر حملہ کرتے ہوئے اکثریتی طبقہ سے کہا تھا کہ’دشمنوں کے سر کاٹنے کیلئے اپنے چاقو چھریاں تیز کرلیں اور اپنے ساتھ تیز دھار ہتھیار رکھیں ‘‘ ۔اس کے بعد کئی حلقوں کی جانب سے انکے ریمارکس کیخلاف آوازیں اٹھیں اور ممبر پارلیمنٹ پرکارروائی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ان پر ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی۔لیکن حسب معمول زہر اگلنے والی پرگیہ سنگ پر کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی گئی۔اب کافی دنوں بعد یہ معاملہ ایک بار پھر سرخیوں میں ابھر آیا ہے ۔سابق بیوروکریٹس کے ایک گروپ نے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا سے کہا ہے کہ وہ ’غیر ہندو برادریوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور ان کے خلاف تشدد کی وکالت کرنے‘ کے الزام میں بی جے پی ایم پی پرگیہ ٹھاکر کے خلاف ضروری کارروائی کریں۔ کرناٹک کے علاقہ شیوموگا میں دیے گئے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے، آئینی طرز عمل گروپ کے بینر تلے ایک سو سے زیادہ سابق سرکاری ملازمین نے کہا، ’حالانکہ ایسا لگتا ہے کہ پرگیہ ٹھاکر نے اپنے اوپر لگائے گئے مجرمانہ الزامات سے بچنے کے لیے اپنے الفاظ کا انتخاب بڑی چالاکی سیکیا ہے ۔ اپنے خط میں کیا ہے انہوں نے کہا کہ بھوپال کے رکن پارلیمنٹ کے خلاف لوک سبھا کے قواعد کے تحت سخت کارروائی کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا، ’’ان کی نفرت انگیز تقریر اور نفرت پھیلانے کی بار بار کی کارروائیوں کی وجہ سے، وہ پارلیمنٹ کے رکن ہونے کا اپنا اخلاقی حق کھو چکی ہیں،‘‘ خط پر دستخط کرنے والوں میں اے ایس دلت، نجیب جنگ، ہرش مندر، شیوشنکر مینن، ٹی کے اے نائر، جولیو ریبیرو اور ارونا رائے شامل ہیں‘‘۔
در اصل یہ ملک امن پسند لوگوں کا ہے اورمحبت کرنے والوں کا ہے ،اس لئے جب بھی نفرت اور اشتعال پھیلانے والوںنے بھارت میں اپنے تخریبی بیانات سے اس کے امن کو غارت کرنے کو شش کی ،اسکے خلاف ایک طبقہ اٹھا اور اپنی کراہیت کاا ظہار کیا ۔اس سے قبل بھی ملک میں نفرت کو کچلنے کے لئے امن پسند لوگوںنے اشتعال انگیز بیانوں کے خلاف آواز اٹھائی ،لیکن ان کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی بلکہ ان کے مطالبہ کے خلاف دائیں بازو کا ایک طبقہ اٹھ کھڑا ہواجس نے بے شرم اور نفرت کے سوداگروں کی حمایت میں ایک خط وزیر اعظم کو لکھ مارا۔قابل ذکر ہے کہ یہ وہی پرگیہ سنگھ ہیں جو مالیگائوں بم دھماکوں میں اہم ملزم ہیں ،اور ان کو نومبر 2019 میں دفاعی معاملوں کی پارلیمانی کمیٹی کیلئے نامزد کیا گیا تھا۔لیکن شاید ان کو وہ عہدہ راس نہیں آیا ،اور کچھ ہی دنوں بعد گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈ سے کو وطن پرست ٹھہرانے پر پرگیہ سنگھ کو کمیٹی سے نکال باہر کر دیاگیا۔لیکن ان کو اس کا ذرہ بھی ملال نہیں رہا اور وہ اپنے بیان پر اڑی رہیں۔اب ایک بار پھر نفرتی بیان بازی کر کے پرگیہ نے نفرت کو کچلنے والوں کاحوصلہ توڑنے کی کوشش کی بلکہ ملک میں زہر گھولنے کا کام کیا ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ جمہوریت کو بچانے والوں کی آواز سنے اور ممبر پارلیمنٹ پرگیہ سنگھ کے سنگین جرم پران خلاف قرار واقعی سزا کیلئے سفارش کرے ۔