عدلیہ کسی بھی جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے،اس میں آزادی اور اختیار کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اگر اس میں کسی جماعت ،گروہ ، بااثر شخصیات یاحکومت کے لوگوں کی مداخلت شروع ہو جائے تو فیصلوں میں شفافیت اور انصاف کا امکان یا تو ختم ہو جائے یا پھر مشکل ہو جائے ۔وطن عزیز میں عدلیہ کا جو تصور پایا جاتا ہے وہ یہاں کے جمہوری نظام میں کلیدی رول ادا کرتا ہے ۔کیونکہ عدلیہ اور مقننہ جمہوریت کے ستونوں میں سے ہیں ۔یعنی انہیں لازم و ملزوم کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔پارلیمنٹ میں حکومت کے ذریعہ جو قوانین مرتب کئے جاتے ہیں انکے نفاذ میں عدلیہ اہم کردار ادا کرتی ہے ۔بشرطیہ کہ عدلیہ میں مداخلت نا ہو اور وہ فیصلے کرنے میں بالکل آزاد ہو ،اس پر کسی جماعت یا گروہ کا دبائو نہ ہو ۔مرکزی مودی حکومت نے پچھلے دنوں جس طرح سے ججوں کی تقرری میں اپنی نمائندگی کی وکالت کا طریقہ اختیار کیا ہے وہ چو طرفہ تنقیدوں کا موضوع بنا ہوا ہے۔وزیر قانون کرن رججو نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط تحریر کر کے کہا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ ججوں کی تقرری میں اس کے نمائندے بھی شامل رہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ حکومت کا یہ قدم نیشنل جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن ایکٹ کو منسوخ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی تجاویز کے عین مطابق ہے۔غور طلب ہے کہ کالجیم نظام وہ عمل ہے جس کے ذریعے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کا تقرر اور تبادلہ کیا جاتا ہے ،ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ججو کی تقرری کیلئے ناموں کی لسٹ کولجیم میں بھیجی جاتی ہے جو بعد میں حکومت کو بھیجتاہے ۔حکومت اس نام کو منظور کر کے واپس کالجیم کو بھیجتی ہے۔لیکن حکومت کے منصوبہ سے اب اس کی منشا ور نیت پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں بپھری ہوئی ہیں اور وہ کالجیم میں مداخلت قرار دے رہی ہیں ۔کانگریس ،عام آدمی پارٹی اور ترنمول کانگریس پارٹی نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ مرکز کی نیت ٹھیک نہیں ہے ،حکومت عدالتی نظام کو تباہ کردینا چاہتی ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کے کسی ردعم ل کا حکومت کوئی نوٹس لے گی ۔الزام یہ ہے کہ حکومت اپنی مرضی سے بڑے اہم فیصلے کرتی ہے جن کی بعد میں فضیحت ہو جاتی ہے ۔نوٹ بندی ہو یا پھر جی ایس ٹی (ایک ملک ایک قانون ) ،یا پھر تین زرعی قانون، اپوزیشن کے نوٹس میں لائے بغیر یا اس کو اعتماد میں لئے بغیر ہی تینوں فیصلے لئے گئے ،جس میں ایک میں حکومت کو قدم پیچھے کھینچنے پڑے ،جبکہ بقیہ دومعاملے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی لوگوں کے لئے آزمائش بھرے رہے۔اپوزیشن کی شکایت رہی کہ اسے فیصلے سے دور رکھا گیا اور اعتماد میں نہیں لیا گیا۔تازہ کولیجم نظام میںحکومتی نمائندوںکی شمولیت کا مطالبہ بھی اسی راہ پر ایک قدم لگتا ہے ۔وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا ہے کہ اگر عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت ہوئی تو جمہوریت کو نقصان پہنچے گاعدالیہ کی آزادی میں کسی قسم کی مداخلت درست نہیں ۔ان کا صاف کہنا ہے کہ مرکزی حکومت عدلیہ میں براہ راست مداخلت کرنے کی کوشش کررہی ہے۔بنرجی نے یہ بھی کہا کہ جن ججوںکو حکومت پسند نہیں کرتی ان کے نام کو کلیر کرنے میں وقت لگایا جاتا ہے۔جنہیں پسند کرتے ہیں ان کا نام ایک مہینہ میں ہی کلیر کر دیا جاتا ہے۔ادھر ۔کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے بھی اخبار میں شائع مضمون کو ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا،’’ یہ عدلیہ کو ڈرانے اور آخر کار اس پر پوری طرح سے قبضہ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اصلاحات کی جائیں لیکن حکومت مکمل کنٹرول چاہتی ہے حکومت کا حل عدلیہ کے لیے زہر کی گولی ہے ‘‘۔دہلی کے وزیر اعلیٰ کجریوال نے کہا،’’یہ بہت خطرناک ہے، ججوں کی تقرری میں حکومت کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔‘‘الغرض اپوزیشن جماعتوں نے ایک بار پھر حکومت کے ارادہ پر سوال کھڑے کئے ہیں اور اس پر سخت تشویشات ظاہر کی ہیں ۔رججو کے خط سے حکومت کا منشا واضح ہوتا ہے ،لیکن کیا اس کا جمہوریت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا یہ حکومت کو سوچنا ہوگا۔حکومت کو اپوزیشن کی تشویشات کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے اور ان کو اعتماد میں لے کر ہی قدم اٹھانا چاہئے۔غور طلب ہے کہ کرن رجیجو نے کہا تھا، ’’میں عدلیہ یا ججوں پر تنقید نہیں کر رہا ہوں،بلکہ سپریم کورٹ کالجیم کے موجودہ نظام سے خوش نہیں ہوں۔ کوئی بھی نظام کامل نہیں ہے۔ ہمیں ہمیشہ بہتر نظام کے لیے کوشش اور کام کرنا ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ نظام احتساب اور شفاف ہونا چاہیے اور اگر یہ نظام شفاف نہیں تو وزیر قانون نہیں تو کون بولے گا۔رججو کے موقف کی تائید کرتے ہئے نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھر، لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے بھی کہا ہے کہ عدلیہ مقننہ کے حقوق پر تجاوز کر رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ حکومت کوبتانا چاہئے کہ وہ کولیجم کے نظام سے خوش کیوں نہیں ہے اور اس میں نمائندگی کیوں چاہتی ہے جبکہ ججوں کے نام کو تو وہی طے کرتی ہے ! اس لئے موجودہ نظام سے بیزاری کی وجہ بتانی چاہئے۔