اسلام نے انسان کی پیدائش کے وقت ہی تعلیم کو برتری کی بنیاد بنا کر تمام مخلوقات اور فرشتوں پر ان کی عظمت کا اعلان کیا، آخری نبی حضرت محمد مصطفی پر آنے والی ابتدائی وحی اور قرآن کی پہلی آیت میں لفظ”اقرأ“ کے ذریعہ اس قوم کی ترقی ،کامیابی اور اخروی نجات کو تعلیم پر منحصر قرار دیا۔ جنگ بدر میں کامیابی اور دشمنوں کی بڑی تعدادمیں گرفتاری کے بعد پڑھے لکھے لوگوں کو دس بچوں کی تعلیم کے عوض آزاد کرنےکا حکم دے کرکسی قدر ان کے احترام کا پیغام دیا تو دوسری طرف جنگ اور انتقام کے بجائے تعلیم کو انقلاب کا ذریعہ بنانے پر زور دیا۔
تعلیم کا اصل مقصد ترقی، خوشحالی اور بنیادی ضرورتوں کی تکمیل ہے اس کے لئے علاقائی صورتحال، وقتی تقاضوں، ماحول اورمستقبل کی ضروریات کے مدنظر ایسے مضامین کو شامل نصاب کیا جاتا ہے جو سماج کی بنیادی ضرورت ہو۔وطن عزیز ہندوستان میں بھی جوایک کثیر ثقافتی، جمہوری اور سیکولر ملک ہے اورجہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے بڑی تعداد میں ہیں ، تعلیم کی اہمیت سمجھ کر،مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے ذریعہ مختلف ضروری مضامین کو شامل نصاب کر کےاس سلسلہ میں مثبت کوششیں ہوئیں، لیکن سرکاری تعلیمی اداروں میں دینیات اور مذہبی تعلیم کو شامل کرنا آسان نہیں تھا، بعض تہواروں، مذہبی شخصیات اور مقامات کو ضرور شامل نصاب کیا گیا لیکن اس میں بھی اقلیتی طبقہ کے بجائے اکثریت کی طرف رجحان واضح طور پر محسوس کیا گیا، اور گذشتہ چند سالوں سےتو منصوبہ بند طریقہ پر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے مزاج میں واضح طور پر اضافہ ہوا۔
مسلمانوں نے ہمیشہ ایسے تعلیمی نظام و نصاب کو ترجیح دی جس میں،دنیوی و اخروی کامیابی ،ملکی ترقی و خوشحالی اور ضرورتوں دونوں کو مد نظر رکھا جائے، اور آزادی سے پہلے ہی بہت سے ایسے ادارےقائم کئے جن میں علوم عصریہ کے ساتھ دین کو اولیت دی گئی اور ضروری دینی مضامین کو شامل نصاب کیا گیا ، تاکہ یہ ادارے ایک طرف اسلام کے قلعے، ہدایت کے سر چشمے، اور اشاعت دین کے مفید و مؤثر اور کامیاب ذریعے بن سکیں اور یہ کوشش کی گئی کہ یہاں اسلامی مزاج و انداز کے ساتھ ملکی و سماجی ترقی اور ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر تعلیم و تربیت دی جائے ، انسانی تقاضوں پر عمل، اس کی دعوت و تبلیغ، اس کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا ہو سکے، دین کے تحفظ و بقا، اس کی اگلی نسل تک صحیح اور واضح شکل میں منتقلی، دین پر ہونے والے اعتراضات اور اس کے خلاف ہونے والی سازشوں کا حکمت کے ساتھ جواب دینا ممکن ہو سکے۔
اسی طرح یہ مقصد بھی پیش نظر رہا کہ نصاب میں شامل مضامین میں تنوع اور وسعت کی بنا پر وہ عصری میدانوں اور ملک وبیرون ملک بھی نمایاں خدمات انجام دیں اور واقعی بعض فارغین نے ملکی سطح پر صدر جمہوریہ اور دیگر اہم عہدوں تک پہنچ کر اپنی صلاحیتوں کو منوایا بلکہ ان میں ایک بڑی تعداد طبی ، قانونی ،معاشی، صحافتی، سیاسی، سفارتی اور انتظامی میدانوں میں جاکر ڈاکٹر، وکیل ، انجینر صحافی اور ماہر معاشیات بنے بلکہ اب تو ایک تعداد مختلف پیشہ وارانہ میدانوں میں بھی ہے جن میں بعض ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ڈائرکٹر اور بعض ڈپٹی سی ایم او کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔یہی نہیں بلکہ وطن عزیز کے ہر صوبہ میں فارغین مدارس نے نہ جانے کتنے دینی، عصری طبی اور ٹیکنکل تعلیمی ادارے، اعلی طبی، ٹیکنکل، انتظامی اور سول کمپٹیشن کے لئے کوچنگ سنٹر اور بے شمار اسپتال اور رفاہی ادارے قائم کئے۔
یہ ادارے عام طور پر کسی سرکاری فنڈ یا مستقل ذریعہ آمدنی کی بجائے خیراتی اداروں اور اہل خیر کے تعاون سے اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی ایسی ”این جی اوز“ (غیر سرکاری ادارے) ہیں جہاں بلا معاوضہ تعلیم کے ساتھ طلبہ کو رہائش و خوراک اور کہیں کہیں تو مفت طبی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے،تاریخ گواہ ہے کہ ان اداروں نے محدود وسائل، تمام تر مشکلوں، پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود اپنا وجود اور مقام برقرار رکھا اور ہر ملی و ملکی مسئلہ میں ناقابل فراموش کردار نبھایا۔
آزادی کے کئی سالوں بعد مختلف صوبوں میں مدرسہ بورڈ کے قیام کے بعدبعض مدارس نےبورڈ سے الحاق اور مالی فائدے ضرور حاصل کئے لیکن تعلیم وتعلم کا کام قوم و ملت کے تعاون سے تعمیر کردہ عمارتوں میں ہی رہا۔ اس وقت بھی بعض محتاط افراد نے بورڈ سے الحاق اور مالی فائدوں کو قابل اعتنا نہیں سمجھا اور ممکنہ رخنوں کے خدشہ سے بچنے کیلئے کسی طرح بچوں کی دینی تعلیم اور ضروری عصری علوم بشمول سائنس، حساب، جغرافیہ اورہندی وانگریزی زبان پر مشتمل نصاب کے مطابق تعلیم کا ایسا عظیم انتظام کیا جس کی مثال آسانی سے نہیں مل سکتی۔
کچھ دنوں قبل اتر پردیش حکومت کے ذریعہ مدارس کے سروے پر مختلف جہتوں سے تشویش کا اظہار کیا گیا لیکن حکومت اور مدرسہ بورڈ کے بعض نمائندوں کے وضاحتی بیان اور اس کا مقصد مدارس کی تعداد اور وسائل معلوم کرنا بتانے کے بعد اہل مدارس نےاس میں تعاون اور بھرپور ساتھ دیا، لیکن کچھ دنوں قبل مدھیہ پردیش حکومت کی طرف سے مدارس کے نصاب پر سوال اٹھانے اور اس نقطہ نظر سے مدارس کے سروے کی بات نے ایک بار پھر تشویش میں اضافہ کردیا۔
اسی طرح یوپی میں مدرسوں کے سروے کے بعد”غیر مانیتا پراپت“ مدرسوں کی 626 صفحات پر مشتمل 8449 مدرسوں کی لسٹ میں 1893 میں قائم اس عظیم تعلیمی ادارہ کا نام دیکھ کر حیرت کی انتہا نہیں رہی جسے ہندوستان کی بیشتر یونیورسٹیاں تسلیم کرتی ہیں اور جس کے فارغین کو بیرون ملک بھی عزت کی نظر سے دیکھا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔
مدرسہ بورڈ کے چیرمین ڈاکٹر افتخار احمد جاویدکا وہ بیان یاد آرہا ہے جس کی وجہ سے ان کی قدر میں اضافہ ہوا تھا کہ یوپی میں وہ تمام مدارس ”مانیتا پراپت“ مانے جائیں گے جن کا الحاق مدرسہ بورڈ یا صوبہ کے بڑے مدرسوں ندوہ، دیوبند، جامعہ اشرفیہ ،جامعہ سلفیہ اور بعض دیگر مدارس سے ہو۔ لیکن لسٹ دیکھنے کے بعد اعتبار کو ٹھیس لگی اور یہ خدشہ بھی پیدا ہوگیا کہ کچھ دنوں بعد یہ ”غیر مانیتا پراپت“ مدرسے”غیر تسلیم شدہ“ اور پھر”غیر قانونی“ نہ قرار دئے جائیں اور دیر سویر ان میں مداخلت پر عوام و ذمہ داران مدارس بابری مسجد اور دیگر بہت سے مسائل کی طرح کچھ کہنے یا کرنے کی پوزیشن میں نا رہ جائیں۔
جہاں تک اس بورڈ کا تعلق ہے جس سے الحاق نہ ہونے کی وجہ سے مدارس کو ”غیر مانیتا پراپت“ قرار دیا جا رہا ہے تو اس بورڈ کے جاری کردہ سرٹیفکیٹس کو پاسپورٹ آفس بغیر کسی ہچکچاہٹ ناقابل اعتبار قرار دیتا رہا ہے، بورڈخود ایک ضلع میں سیکڑوں فرضی مدرسے کے وجود پر نوٹس جاری کرچکا ہے، اس کے مدارس بیشتر” غیر مانیتا پراپت“ مدرسوں کی عمارتوں میں کام انجام دے رہے ہیں، وہاں تقرری، تعلیم اور امتحانات کی حقیقت خود بورڈ کے ذمہ دار اور متعلقین ہی بیان کر سکتے ہیں، اس کے جاری کردہ سرٹیفکٹس میں غلطیاں، اس کی تصحیح کے مراحل اور دشواریاں، سرٹیفکٹس کی تصدیق اور اس کے نکلوانے کے مراحل اور مطالبات پریشان حال طلبہ سے ہی پوچھنا مناسب ہوگا۔
لیکن افسوس کہ جس بورڈ کی یہ صورتحال ہے اس سے ملحق نہ ہونے والے سوسائٹی ایکٹ اور دوسرے قانونی طریقوں کی پابندی کرنے والے یہاں تک کہ بین الاقوامی شہرت کے حامل اور ملک کی عزت و و قار میں اضافہ کا سبب بننے والے ادارے ”غیر مانیتا پراپت“ قرار دئے جارہے ہیں۔