موصولہ خبروں کےمطابق صیہونی حکومت نے ہفتہ آٹھ جون کو اپنے جرائم کو جاری رکھتے ہوئے غزہ کی پٹی کے مرکز النصیرات کیمپ میں ایک ہولناک قتل عام کیا ہے- فلسطینی حکومت کے انفارمیشن آفس کے مطابق ان وحشیانہ جرائم میں شہید ہونے والوں کی تعداد دو سو دس سے زیادہ ہو گئی ہے جبکہ چار سو سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں-
ہمارے نامہ نگار کی رپورٹ کےمطابق مقبوضہ علاقوں میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ فرانچسکا آلبانیز نے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت غزہ میں فلسطینیوں کے قتل و غارت کو جائز قرار دینے اور انہیں بھوکا مارنے کے لیے قیدیوں کا استعمال کر رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ دیگر مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے خلاف جرائم میں شدت لا رہی ہے-
مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ نے کہا کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی بے گناہ لوگوں کے قتل ، اور اس جرم کی آڑ میں انسانی امداد کے ٹرکوں کو استعمال کرنے کی قیمت پر نہیں ہونی چاہیے۔ آلبانیز نے کہا کہ صیہونی حکومت آٹھ مہینہ پہلے ہی قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے ذریعے اپنے تمام قیدیوں کو رہا کرا سکتی تھی، جس طرح قیدیوں کے تبادلے کا پہلا مرحلہ انجام پایا تھا، لیکن اس حکومت نے غزہ میں مزید تباہی اور قتل عام جاری رکھنے کے لیے معاہدے کی مخالفت کی اور یہ عمل اسرائیلی حکومت کے تئیں فلسطینی عوام کی نسل کشی کے واضح فیصلے کو ظاہر کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مارٹن گریفتھس نے بھی اس بات پر زور دیا کہ النصیرات کیمپ میں قتل و غارت گری کے مناظر نے ثابت کر دیا کہ جنگ ہر لمحہ خوفناک ہوتی جا رہی ہے اور یہ کیمپ غزہ میں المیہ رونما ہونے کا مرکز ہے۔