عامر سلیم خان
نئی دہلی 9؍ نومبر، سماج نیوز سروس:اردو زبان کی زبوں حالی کیلئے محض سرکارپر انگشت نمائی ٹھیک نہیں، اس کیلئے ہم خود بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ آج علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے یوم پیدائش پر’عالمی یوم اردو‘ کی تقریب کے دوران مقررین نے اردو والوں کو عار دلاتے ہوئے کہا کہ اگر اردوکیلئے سرکاروں نے کام کم کئے ہیںتو ہم نے بھی اردو کی ترویج وارتقاء کیلئے سنجیدگی نہیں برتی ہے۔ یہ سالانہ تقریب ’اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن ‘ اور ’یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا‘ کے زیر اہتمام یہاں غالب اکیڈمی، بستی حضرت نظام الدین میں منعقد کی گئی تھی۔اس تقریب کے روح رواں ڈاکٹر سید احمد خان کو مسلسل 25 برسوں سے یوم اردو کی تقریب منائے جانے پر شرکاء نے داد وتحسین سے نوازا۔ ہرسال کی طرح اس سال بھی ایک یادگار مجلہ کا اجراء بھی عمل میں آیا۔ اس سال کا یادگار مجلہ معروف عالم دین اور عظیم دانشور مولانا عبدالحمید رحمانیؒ کی شخصیت اور خدمات پر تھا۔ پروگرام کے دوران کئی اور کتابوں کا اجراء بھی عمل میں آیا۔ تقسیم ایوارڈز اور مذاکرہ کا بھی انعقاد عمل میں آیا جس کا عنوان تھا’اردو زبان کو درپیش چیلنجز او را ن کاحل‘۔
اس موقع پر پروفیسر عبدالحق نے کہا کہ علامہ اقبال نہ صرف اردوزبان کے پرستار تھے بلکہ وہ پوری دنیا میں ایک اچھے سماج کے قیام کے مجاہد بھی تھے۔ علامہ کی حب الوطنی پر جو لوگ انگشت نمائی کرتے ہیں ، انہیں سمجھنا چاہئے کہ برطانوی حکومت کیخلاف ان کے اشعار نے نوجوانوں کے خون میں گردش پیدا کردی تھی۔ پریس کلب آف انڈیا کے صدر اوماکانت لکھیڑا نے کہا کہ علامہ اقبال کسی ایک ملک کی سرحد تک محدودکی جانے والی شخصیت نہیں تھے، وہ ایک عالمی شاعر تھے اور انہوں نے اپنے اشعار کے ذریعہ نہ صرف گرمی پیدا کی بلکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سیکولرز پر بھی کام کیا۔اردو کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے کیونکہ اس زبان کو ایک مذہب کے ساتھ جوڑ دیاگیا۔مولانا آزاد اویکننگ سینٹر کے سربراہ مولانا محمد رحمانی نے اپنے والد مولانا عبدالحمیدؒ پر یادگاری مجلہ شائع کرنے کیلئے کہا کہ شخصیت پرستی اس حدتک ہونی چاہئے جہاں وہ شریعت اور عقیدے سے متصادم نہ ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ عظیم دانشور اور عالم دین مولانا عبدالحمید رحمانیؒ نے موجودہ سیاسی بے راہ روی کو دیکھتے ہوئے خود کو سرگرم سیاسی زندگی سے دور کرلیا تھا۔ مولانامحمد رحمانی نے اردو کی ترویج وارتقاء کیلئے اردو والوں کو وقت نکالنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اردو میں نہ صرف ہماری تہذیب ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کا خزانہ بھی موجود ہے۔
قبل ازیں سینئر صحافی سہیل انجم نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر سید احمد خان مسلسل 25 برسوں سے یوم اردو مناتے آرہے ہیں اور اس کا دائرہ انہوں نے بیرون ملک تک وسیع کرتے ہوئے نیپال میں زاہد آزاد جھنڈا نگری کو اردو کی ترقی کی ذمہ داری دی ہے۔ سہیل انجم نے علامہ اقبال پر کہا کہ جو لوگ علامہ کی حب الوطنی پر شک کرتے ہیں انہیں دیکھناچاہئے کہ علامہ نے بھگوان رام کو امام الہند کا خطاب دیا ہے اور ایسی نظمیں لکھی ہیں جن میں حب الوطنی کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اردو ہی وہ زبان ہے جس نے صحافتی ذمہ داری پیش کرتے ہوئے ہندوستانیوں میں برٹش حکومت کیخلاف جوش پیدا کیا تھا۔ مذکورہ مقررین کے علاوہ اہم شرکاء اور مقررین میں ڈاکٹر سید احمد فاروق ، زاہد آزاد جھنڈانگری، ڈاکٹر لال بہادر ، پرواز علوم، مہاراشٹر سے سینئر صحافی خیال انصاری، جسٹس این کے جین ، مولانا محسن عثمانی ندوی اور مولانا سراج الدین ندوی سمیت متعدد افراد شامل تھے۔
تقریب کے دوران ’عالمی یوم اردو یادگار مجلہ‘ کے ساتھ ساتھ کئی دیگر اہم ارد و کتابوں کا اجراء بھی عمل میں آیا، جو متعدد صحافیوں، ادیبوں اور تعلیمی وسماجی شعبہ میں کام کرنے والے افراد نے لکھی ہیں۔ جن میں مولانا جمیل احمد کی کتاب نبی اکرم ہادی اعظم، حکیم رشادالاسلام کی ’ نعمت اللہ انصاری ! شخصیت اور کارنامے، ایم طاہر کی فلسفی ابن صفی ودیگر شامل تھیں۔ علاوہ ازیں جن افراد کو صحافت ، ادب، سیاست اور سماجی خدمات کیلئے اس میدان کی قدیم اہم شخصیات کے نام سے ایوارڈ دیئے گئے ان میں پروفیسر حبیب الرحمن نیازی، محمد محمود خاں، حکیم فخر عالم، ڈاکٹر ابھئے کمار، مہتاب عالم، انتظار نعیم، ڈاکٹر عمیر منظر، محمد رئیس صدیقی، محترمہ کرشنا شرما دامنی، ڈاکٹر عبید اللہ چودھری، عبدالرشید اعظمی، اشرف میواتی، سید ساجد علی ٹونکی، رونق جمال، نشاط حسن، زبیر خان سعیدی، طاہر الحسن ، محترمہ روہنی سنگھ اور فرید بک ڈپو کے محمد ناصرخان شامل تھے۔