بیہار میں حالیہ الیکشن کی تیاری کے دوران انتخابی فہرستوں (voter rolls) کی خصوصی نظرِثانی (Special Intensive Revision) نے ایک نئے تنازعہ جنم دے دیا ہے جسے کچھ حلقوں نے درپردہ NRC کا آغاز قرار دیا ہے۔دراصل چھ جون کو انتخابی کمیشن نے فیصلہ کیا کہ 2003 کے بعد رجسٹر ہونے والے ووٹروں کو اپنی اور اپنے والدین کی پیدائش و شہریت کا ثبوت پیش کرنا ہو گا، اور اس عمل کی تکمیل کے لیے ایک ماہ میں گھروں پر دستاویزات کی جانچ ہو گی ۔
مخالفین، جن میں AIMIM کے صدر اسد الدین اویسی، TMC کے ڈیرک او’برائن اور INDIA بلاک کے نمائندے شامل ہیں، اس عمل کو NRC جیسا مؤقف دیتے نظر آئے۔ اویسی نے اس کا موازنہ "بیک ڈور سے NRC” سے کیا اور کہا کہ معاشرے کے پسماندہ افراد، کسان، مزدور اور مسلم اکثریت سے تعلق رکھنے والے ووٹرز اس اضافی دستاویزات کے بوجھ کے سبب ووٹنگ کے اہل ہونے کے دعوے سے محروم ہو سکتے ہیں ۔ TMC کے سابق ایم پی ڈیرک او’برائن نے تو اس کا موازنہ ‘Naz i Ancestor Pass’ سے کر ڈالا ۔
مزید برآں INDIA بلاک کے رکن کانگریس و CPI‑ML نے بھی اس عمل کو بیہودہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی جانچ سے لاکھوں ووٹروں کا حقِ رائے دہی متاثر ہو سکتا ہے ۔
دُوسری طرف انتخابی کمیشن اس منصوبے کو جائز، حقائق کی سند میں بہتری اور جعلی ووٹوں کی روک تھام سے جوڑتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب انتخابات کی تاریخ قریب ہو، تو کیا عین وقت پر اس طرح کا کام کرنا مناسب ہے ؟ خود الیکشن کمیشن کو اس سلسلہ وضاحت پیش کرنی چاہئے کہ ہمارے پاس اتنے لوگ اور اتنا فنڈ ہے کہ ہم اس کام کو مقررہ مدت میں کرا سکتے ہیں ۔ایک سوال اور اٹھایا جا رہا ہے کہ جب چند ماہ ہی انتخاب کو بچے ہیں تو ایسے میں وافر دستاویز کی کمی سے جن ووٹرس کے ووٹ کو الیکشن کمیشن رد کریگی ان کو حق ہوگا کہ وہ عدالت جائینگے جہاں اس ضمن میں سپریم کورٹ نے 1995 میں اپنے فیصلے میں واضح کیا تھا کہ کسی ووٹر کا نام بغیر نوٹس اور مناسب عمل کے فہرست سے نہیں ہٹایا جا سکتا ۔تو کیا اتنا وقت اب ووٹرس کو مل پائیگا ؟
بہار کا سیاسی پس منظر بھی نازک ہے۔ اس ریاست نے فروری 2020 میں متفقہ قرار داد کے ساتھ NRC کو مسترد کر دیا تھا ۔ یہی موقف وزیراعظم نیتیش کمار نے بارہا دہرا کر کہا کہ بہار میں NRC لاگو نہیں ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ دستاویزاتی تقاضے کبھی NRC کے ذریعے شناختی حوالوں کے اعداد و شمار میں تبدیلی نہیں لا سکتے؟
اگر واقعی انتخابی کمیشن کی نیت صاف ہے ۔کہ وہ صرف انتخابی فہرستوں کو شفاف دیکھنا چاہتی ہے تو پھر یہ طریقہ آمدورفت میں آسانی، عوام کی تعلیم و شعور اور ان تک اس کی واضح معلومات تک رسائی کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔اور اس کے لئے بھی یہ وقت مناسب نہیں ہے ۔اور عوام میں براہ راست پیغام یہی جا رہا ہے کہ اس بہانے بہار اور مرکزی سرکار سازش کے تحت این آر سی کو بہار میں لاگو کرنے جا رہی ہے ۔غور کرنے کی بات یہی ہے کہ اس کا سب سے زیادہ نقصان نتیش کمار کی پارٹی کو ہی ہوگا ۔کیونکہ وہ بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ بہار میں ہماری پارٹی این آر سی نافذ نہیں ہونے دیگی ۔یوں بھی غربت اور وسائل کی کمی کے سبب بے دستاویز ووٹرز کے حقِ رائے دہی کا ختم ہونا، جمہوری بنیادی اصولوں کی خلافِ ورزی ہے۔
کیونکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ بہار میں لاکھ کوشش کے بعد ابھی بھی تعلیم کا گراف ہندوستان کے دیگر ریاستوں کے مقابلے نیچے سے تیسرا ہے ۔اور انتخابی کمیشن جن دستاویزات کو ضروری قرار دے رہی ہے ان میں سب سے ضروری کاغذ ہائی اسکول کا school leaving certificate ہی ہے جسے عام طور پر ایس ایل سی کہا جاتا ہے ۔اور یہی وہ واحد سرکاری دستاویز ہے جو کسی بھی بچے کو ہائی اسکول دسویں پاس کرنے کے بعد جاری کرتی ہے ۔جس میں طالب علم کا اور اس کے والد کا نام اور مکمل پتہ درج ہوتا ہے ۔لیکن یہ اس وقت جاری ہوگا جب کوئی اسکول میں داخلہ لیا اور ہائی اسکول تک پہنچیگا ۔جبکہ زمینی صورت حال یکسر اس کے خلاف ہے ۔ایسے میں انتخابی کمیشن کو مکمل وضاحت کرنی چاہیے کہ کب اور کن بنیادوں پر نام ہٹائے یا شامل کیے جائیں گے، تا کہ عوامی اعتماد برقرار رہے۔
دستاویزاتی سہولتیں سرکار کی جانب سے کیا کیا جاری کی جائینگی ۔اور کیا اس کے لئے کسی شعبہ کو مختص کیا گیا ہے ؟ بیوہ خواتین ، پردیسی، پرائمری سطح پر دستاویزی اشوز والے لوگوں کے لیے عارضی شناختی سہولت کا اہتمام بھی جلد از جلد کیا جائے۔ نام نکالے جانے والوں کو مناسب نوٹس اور اپیل کے مواقع فراہم کیے جائیں، جیسا سپریم کورٹ نے شرائط بتائی تھیں۔اور ان سب کے ساتھ ساتھ ریاست کو اپنا متفقہ موقف دہرانے کی بھی ضرورت ہے– جس میں NRC کی ضرورت پر مکمل انکار اور NPR کو 2010 کی ہی شکل میں نافذ کرنے کا ذکر ہو۔
بہار میں حالیہ دستاویزات کی جانچ ایک قانونی عمل ضرور ہو سکتی ہے، لیکن جب عوام کا ووٹ ہی اس کی قیمت بن جائے، تو سارا مقصد فوت ہو جاتا ہے ۔ووٹ کے سلسلہ میں ہر شہری کو پیدائشی حقِ رائے دہی کا تحفظ حاصل ہونا چاہیے، بدون کسی غیر ضروری دستاویز کی رکاوٹ کی۔
انتخابی کمیشن اور ریاست حکومت کے درمیان واضح توازن غیر جانبداری، جمہوری شعور اور سب کو برابر کا حق دینے کے لیے ناگزیر ہے۔