اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان گروہ بندی سے پہنچا ہے ۔اس احساس اور شعور کے باوجود باہمی اتحاد اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ 33 کڑوڑ دیوتائوں کو پوجنے والے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہورہے ہیں ،مشرق و مغرب کا بعد رکھنے والے قریب آرہے ہیں ،ایک طرف 26اور دوسری طرف 38پارٹیاں ایک ساتھ یکجا ہورہی ہیں ،لیکن ایک خدا ،ایک رسول ،ایک کتاب اور ایک قبلہ رکھنے والے ماضی کے اختلافات کو مزید ہوا دے کر بھڑکا رہے ہیں ۔مسلمانوں میں یوں تو سیکڑوں فرقے ہیں ،البتہ تمام مسلمان دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہیں۔ایک گروہ شیعہ ہے اور دوسر ا گروہ سنی ہے۔ان دونوں کے درمیان اختلافات کی سب سے بڑی وجہ حضرت علی ؓ کے مقام و منصب اور ان کی خلافت ہے ۔اہل تشیع کو شکایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے وصال کے بعد خلافت کا حق حضرت علی ؓ کا تھا ۔ان کے پیش روتینوں خلفاء نے نعوذ باللہ ان کا حق سلب اور غصب کیا ۔اہل بیت رسول کے ساتھ ناانصافیاں کیں ۔جب کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ چاروں خلفاء برحق ہیں اور ان کی ترتیب خلافت میں کسی قسم کا ظلم یا حق تلفی نہیں کی گئی ہے۔اس مسئلہ کو جس شد و مد کے ساتھ بیان کیا گیا اور اس کو لے کر جس طرح کی تاریخ مرتب کی گئی ،جس قسم کی روایتیں وضع کی گئیں ،جس طرح اپنے ہمنوائوں کو ایک دوسرے کے بارے میں بدگمان کیا گیایہاں تک کہ صحابہ ؓ پر سب و شتم کیا گیا ان سب کو دیکھ کر کوئی غیر مسلم کس طرح اسلام کو دین برحق تسلیم کرسکتا ہے ۔اسلام کی اشاعت و استحکام میں ان دونوں گروہوں کی باہم لڑائیاں رکاوٹ بنیں ۔موجودہ دور میں بھی ان دونوں کے درمیان مشرق و مغرب کی دوری ہے ۔ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا تو دور کی بات ہے ،عام طور پر مساجد بھی الگ الگ ہیں اور ایک دوسرے کی مسجد میں کم ہی جاتے ہیں ۔باہم رشتہ داریاں بھی نہیں کرتے ،جب کہ قرآن کے مطابق اہل کتاب کی بیٹیوں سے اپنے اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے مسلمان شادی کرسکتے ہیں ،لیکن ایک قرآن کی تلاوت کرنے والے ایسا نہیں کرتے ۔
میں شیعوں کے بارے میں تو نہیں جانتا کہ وہ سنیوں کے بارے میں کیا کیا غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں ۔لیکن سنی عوام کے درمیان بہت سی غلط فہمیاں رائج ہیں ،مثلاً ،شیعہ حضور اکرم ﷺ کو نبی نہیں مانتے ،شیعہ کہتے ہیں کہ قرآن کے چالیس پارے تھے ،شیعہ حضرت علی ؓ کو خدا بلکہ خدا سے بھی بڑھ کر مانتے ہیں ،وہ سنیوں کو جب کوئی کھانا دیتے ہیں تو اس پر تھوک دیتے ہیں بلکہ پاخانہ تک ملا دیتے ہیں ،شیعوں کے امام کی پیدائش نعوذ باللہ حرام کاری سے ہوتی ہے ۔یہ خیالات بیشترسنی مسلمانوں کے ہیں ،علمائے اہل سنت کی اکثریت بھی انھیں گمراہ کہتی ہے ،ان سے روابط رکھنے سے روکتی ہے ،بعض علماء جوش جذبات میں کافر تک کہہ جاتے ہیں ۔میں نے جب کسی سنی عالم سے یہ سوال کیا کہ اگر شیعہ کافر ہیں تو وہ کعبہ میں کیسے داخل ہوجاتے ہیں ؟یا ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر کیسے ہوسکتے ہیں ؟ تو اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں تھا۔ایک بار میں نے ایک شیعہ عالم دین سے مذکورہ غلط فہمیوں پر بات کی تو انھوں نے ان باتوں کا رد کیا ۔ایک بار میں نے قصدا ً شیعوں کی مسجد میں مغرب اور عشاء کی نماز جماعت سے پڑھی ،ان کے امام نے جملہ پڑھانے جانے والا مواد بآواز بلند پڑھایعنی قرأت بھی اور اذکار مسنونہ بھی۔ انھوں نے قیام ،رکوع، اور سجدوں میں بھی نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجا ۔فقہی اختلاف کے علاوہ کوئی فرق مجھے نظر نہیں آیا ۔میرے ایک شیعہ دوست نے بلا کراہت میرے پیچھے نماز پڑھی ۔ہندوستان میں شیعہ سنی اتحاد کے داعی جناب مولانا کلب صادق مرحوم (نائب صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ )نے ٹیلے والی مسجد لکھنو میں اپنے حامیوں کے ساتھ عید کی نماز سنی امام کی اقتدا میں پڑھی مگرمعاف کیجیے گا سنیوں کے نام ور علماء کی طرف سے اسطرح کی کوئی پہل نظر نہیں آئی ۔بلکہ ملک کے معروف دینی اداروں میں فرقہ باطلہ کے ذیل میں شیعوں کا شمار کیا جاتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ان اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے ، ایک دوسرے کو قریب سے سمجھنا چاہئے ۔اب نہ حضرت علی ؓ ہیں ،نہ ان کے سابق کے تینوں خلفاء ،اس لیے اس موضوع کو لے کر آپس میں لڑنا اسلام کو کمزور کرنا ہے ۔خلافت راشدہ اسلام کی تاریخ کا زریں باب ہے ۔چاروں خلفاء نے اپنی جانب سے نظام خلافت کو نبی اکرم ﷺ کے طریقہ پر چلانے کی بھرپور اور مخلصانہ کوششیں کیں ،اس کے لیے انھیں شہید تک کردیا گیا ۔پورے دور خلافت میں حضرت علی ؓ کی زبان مبارک سے کبھی کوئی ایک جملہ بھی تینوں خلفاء کے لیے ایسا نہیں نکلا جس سے یہ اندازہ بھی ہوسکے کہ ان تینوں نے حضرت علی ؓ کے ساتھ زیادتی کی تھی ۔صرف حضرت علی ؓ کی زبان سے ہی نہیں ،بلکہ اہل بیت یا آپ کے خاندان کے کسی بھی فرد کی زبان سے بھی یا ان کے کسی رویہ سے بھی یہ ظاہر نہیں ہوا کہ حضرت علی ؓ کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوئی ہے بلکہ حضرت علی ؓ اپنے پیش رو تینوں خلفاء کی شوریٰ کے معزز رکن رہے ،ان کے شانہ بشانہ رہے ۔غدیر خم کے مقام پر زبان رسالت سے ادا ہونے والے الفاظ کا مطلب اگر خلافت ہی تھا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اشارہ رسول پر جان کا نذرانہ پیش کردینے والے صحابہ اس پر عمل نہ کرتے ۔اگر حضور ﷺ کی آنکھ بند ہوتے ہی ان کے یار غار نعوذ باللہ کوئی بددیانتی کرسکتے ہیں تو پھر اسلامی تاریخ کے سارے ذخیرے کو نذر آتش کردینا چاہئے ،اگر عدل فاروقی ؓ حضرت علی ؓ کے ساتھ ناانصافی کرسکتا ہے تو دین اسلام سے انصاف کی امید چھوڑ دینا چاہئے ؟حضرت عثمان غنی ؓ جیسا انسان جو اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اپنے خون کے پیاسوں اور محاصرہ کرنے والوں پر تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا ،بلکہ خود شہید ہوجانا پسند کرتا ہے وہ کس طرح حضرت علی ؓ کا حق مارسکتا ہے ۔یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ شہادت کے وقت حضرت عثمان ؓ کی حفاظت سیدنا حسن ؓ و حسین ؓ فرمارہے تھے ۔
حضرت علی ؓ کے واسطہ سے اور ان کی محبت میں خلفائے راشدین اور صحابہ کو سب و شتم کرنے والے لوگ عوام کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ان بزرگوںکی آپس میں رشتہ داریاں کیا تھیں ؟اس مختصر مضمون میں جملہ رشتہ داریوں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے ،میں چاروں خلفا ء کے درمیان جو رشتے داریاں تھیں ان میں سے دوچارکا ذکر کرتا ہوں اس سے قارئین اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ سب آپس میں قریبی رشتہ دار تھے ،یہ رشتہ داریاں صرف نبی اکرم ﷺ کی حیات تک محدود نہ تھیں ،بلکہ آپ کے بعد کے ان ادوار میں بھی قائم ہوئیں جب بقول اہل تشیع خلافت پر غاصب براجمان تھے ۔حضرت علی ؓ کی اگر حق تلفی ہوئی ہوتی تو وہ اپنا حق مارنے والوں کے ساتھ رشتہ داریاں کیسے قائم کرسکتے تھے ؟
حضرت علی ؓ کے نکاح میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کی کوششیں شامل تھیں ،انھیں دونوں کے کہنے پر حضرت علی ؓ نے حضور ﷺ سے حضرت فاطمہ ؓ کا ہاتھ مانگا تھا۔یہ دونوں حضرات اس نکاح کے گواہ بھی تھے ۔عثمان ؓ اور علی ؓ آپس میں ہمزلف ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کی بیوہ یعنی اپنی بھابھی سیدہ اسماء بنت عمیس ؓ کا نکاح ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کرا دیا،جس سے ایک لڑکا محمد پیدا ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد اسماء بنت عمیسؓکی شادی علی ؓ سے ہوئی دوسرے الفاظ مین ابوبکر ؓ کی بیوہ کی شادی علی ؓ سے ہوئی۔اس طرح ابوبکرؓکے مذکورہ بالا بیٹے محمد کی پرورش علی ؓنے کی ۔علی ؓ محمد بن ابوبکر کے بارے میں فرماتے تھے’’محمد ابوبکر کی پشت سے میرا بیٹا ہے‘‘ عموماً جس شخص سے نفرت ہوتی ہے اس کی بیوہ سے نکاح نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اپنی عزت اس کے نکاح میں دی جاتی ہے،مگر علیؓ نے بھائی کی شہادت کے بعد بیوہ بھابھی ابوبکرؓ کے نکاح میں دی اور ابوبکر ؓ کی وفات کے بعد اسی بیوہ سے نکاح کیااور ابوبکرؓ کے بیٹے کی پرورش باپ بن کر کی.۔سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓکے داماد تھے۔یعنی ابوبکر ؓ کی پوتی سیدہ حفصہ بنت عبدالرحمٰن کا نکاح علیؓکے بیٹے حسینؓسے ہوا۔سیدنا ابوبکر ؓ کی پڑپوتی ام فروہ بنت اسماء بنت عبدالرحمٰن کا نکاح سیدنا علیؓ کے پڑپوتے باقر بن زین العابدین بن حسین بن علی سے ہواجن سے سیدنا جعفر صادقؒ پیدا ہوئے.وہی جعفر صادقؒ جو اہل تشیع کے سب سے بڑے امام ہیں۔اس طرح سے ابوبکر ؓ جعفر صادقؒ کے پڑنانا ہوئے۔خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓحضرت علیؓکے داماد ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی سیدہ ام کلثوم ؓ کا نکاح عمرؓسے ہوا۔اس طرح عمر رضی اللہ عنہ نواسی رسول کے شوہر ہوئے، علی ؓ کے داماد اور حسن وحسین رضی اللہ عنہما کے بہنوئی ہوئے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیٹی سیدہ عائشہ بنت عثمان رحمۃ اللہ علیہا کا نکاح پہلے حسن بن علی ؓسے ہوا ان کی وفات کے بعد حسین بن علی ؓسے ہوا۔اس طرح حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں عثمان ؓ کے داماد ہیںیعنی عثمان ؓ داماد رسول ہیں اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما داماد عثمان ؓ ہیں۔حضرت عثمان ؓ کے پوتے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عثمان ؒ کا نکاح علیؓ کی پوتی سیدہ فاطمہ بنت حسین بن علی رضی اللہ عنہا سے ہوا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دوسرے پوتے سیدنا زید بن عمرو بن عثمان رحمۃ اللہ علیہ کا نکاح علیؓ کی دو پوتیوں سیدہ سکینہ بنت حسین بن علی ؓاور سیدہ فاطمہ بنت حسین بن علیؓ رحمۃ اللہ علیہما سے یک بعد دیگر ے ہوا۔حضرت عثمانؓ کے پوتے سیدنا مروان بن ابان بن عثمانؓ کا نکاح علی رضی اللہ عنہ کی پوتی سیدہ ام قاسم بن حسن بن علی ؓ سے ہوا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بیٹے ابان بن عثمان کا نکاح علی رضی اللہ عنہ کے بھائی جعفر طیار ؓ کی پوتی ام کلثوم سے ہوا۔سیدنا حسین ؓ کی بیٹی سیدہ فاطمہ رحمۃ اللہ علیہا کا دوسرا نکاح سیدنا حسن مثنیٰ رحمۃ اللہ علیہ کے بعد عثمان ؓکے پوتے عبداللہ بن عمرو بن عثمان رحمۃ اللہ علیہ سے ہوا۔اتنا ہی نہیں حضرت امیر معاویہ ؓ اور حضرت علی ؓ کے مابین بھی رشتہ داریاں تھیں۔
میری دونوں گروہ کی عوام سے گزارش ہے کہ وہ ان امور پر سنجیدگی سے غور کریں ۔وقت اور حالات نیز اسلامی تعلیمات کا تقاضہ ہے کہ باہمی اختلافات کو درکنار کرتے ہوئے ایمان اور اسلام کے رشتہ سے بھائی بھائی بن کر رہیں۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اسٹیج پر اتحاد بین المسلمین کا جو مظاہرہ کیا جاتا ہے کاش علماء کرام اپنے اپنے معاشرے میں اس کی عملی شکل بھی قائم فرمائیں۔
عبدالغفار صدیقی