وزیر اعظم نریندر مودی نے این ڈی اے کے ممبران پارلیمنٹ سے کہا کہ رکشا بندھن کا تہوار مسلم خواتین کے ساتھ منائیں اور ان سے راکھی بندھوائیں ۔ اس دوران پروگرام منعقد کر مسلم خواتین خاص طور پر پسماندہ مسلم خواتین تک رسائی کریں ۔ پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق یہ بات انہوں نے مغربی بنگال، اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے این ڈی اے پارلیمانی ممبران کی میٹنگ میں کہی ۔ نریندر مودی کا دس دنوں کے اندر این ڈی اے کے سبھی ممبران پارلیمنٹ سے ملنے کا منصوبہ ہے ۔ انہوں نے اترپردیش کے 45 ممبران پارلیمنٹ سے ملنے کے دوران کہا کہ ان کی حکومت بلا امتیاز سبھی طبقات کے لئے کام کر رہی ہے ۔ تین طلاق پر پابندی سے مسلم خواتین کو راحت ملی ہے ۔ حج کی پالیسی میں تبدیلی کے بعد اب مسلم خواتین بغیر باپ، بھائی یا شوہر کے حج کر سکتی ہیں ۔ اس سال 4000 خواتین نے بغیر محرم کے حج کیا ہے ۔ نریندر مودی نے کہا کہ بی جے پی کے ذریعہ کئے گئے کاموں کے بارے میں عوام کو بتائیں ۔ انہوں نے قومی اتحاد کے حوالے سے رکشا بندھن پر مسلم خواتین سے ملنے کی ہدایات دیں ۔ حالانکہ بی جے پی نے گزشتہ نو سال کے دوران قومی اتحاد یا سماجی رواداری کے لئے ایک بھی کام نہیں کیا بلکہ جو کچھ سماجی قدریں موجود تھیں انہیں بھی ختم کیا ہے ۔ اس فیصلہ کا بنیادی مقصد صرف پسماندہ مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنا ہے ۔
اترپردیش میں بی جے پی نے 2017 میں غیر جاٹو دلت اور غیر یادو او بی سی کو جوڑنے کا تجربہ کیا تھا ۔ جس میں اسے زبردست کامیابی ملی اور یوپی میں اس کی حکومت بن گئی ۔ 2014 اور 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں بھی اس سوشل انجینئرنگ کا اسے فائدہ ملا ۔ لیکن اس مرتبہ اس کی حالت پتلی ہے ۔ پھر نتیش کمار کے ساتھ چھوڑنے کی وجہ سے بھی اس کی مشکل بڑھی ہے ۔ ایسے میں بی جے پی کو پسماندہ مسلمانوں کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے ۔ کیونکہ مسلم آبادی میں پسماندہ مسلمانوں کی حصہ داری 80 فیصد سے زیادہ ہے ۔ یوپی، بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، مدھیہ پردیش، راجستھان، مہاراشٹر اور گجرات میں پسماندہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ صرف یوپی میں چار کروڑ مسلمان رہتے ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ پسماندہ مسلمان ہیں ۔ یوپی میں بی جے پی کا مشن 80 مسلمانوں کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ اسی منصوبہ کے تحت بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی نے 395 مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا ۔ جن میں سے 61 نے کامیابی حاصل کی ہے ۔ اب جموں کشمیر کے گوجر مسلم لیڈر غلام علی کھٹانا، یوگی حکومت میں اکلوتے مسلم وزیر دانش آزاد انصاری اور عل گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر طارق منصور کو انہیں سادھنے کے لئے لگایا گیا ہے ۔ سابق ممر پارلیمنٹ صابر علی بی جے پی اقلیتی مورچہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو مودی متر بنانے کے منصوبہ پر کام کر رہے ہیں ۔ ساتھ ہی کچھ مسلم علماء و دانشور بھی بی جے پی کے لئے ماحول سازگار کرنے میں لگے ہیں ۔ ان میں میں سے کئی اٹل حمایت کمیٹی میں بھی سرگرم رہے ہیں ۔ روایتی طور پر مسلمان خاص طور پر پسماندہ مسلمان کانگریس، سماجوادی پارٹی، بی ایس پی، آر جے ڈی، جے ڈی یو، ترنمول کانگریس، این سی پی وغیرہ کے ووٹر رہے ہیں ۔ بی جے پی انہیں اب اپنے ساتھ لانا چاہتی ہے ۔
اسلام میں ذات برادری (اونچ، نیچ) کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ لیکن بھارت کے مسلمانوں میں وہ تمام ذاتیں یا برادریاں موجود ہیں جو ہندوؤں میں ہیں ۔ ان میں سے کچھ صاحب حیثیت حضرات اعلیٰ مانے جاتے ہیں جبکہ باقی پسماندہ اور انتہائی پسماندہ ہیں ۔ بی جے پی اقلیتی مورچہ کے صدر جمال صدیقی نے بتایا کہ مورچہ پسماندہ مسلمانوں کو "عزت کے ساتھ ترقی” کی طرف لے جانے کے لئے کام کرے گا ۔ وزیراعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ مسلمان تو پچھڑے ہیں لیکن پسماندہ مسلمان انتہائی پچھڑے ہوئے ہیں ۔ انہیں ملک کی ترقی کے ساتھ جوڑناہے ۔ اس کے لئے بی جے پی نے میزائل مین اے پی جے عبدالکلام کی برسی پر "اسنیہ یاترا” (محبت کا سفر) دہلی سے شروع ہوگی ۔ درجن بھر ریاستوں سے گزر کر کلام صاحب کی یوم پیدائش پر اس کا اکتوبر میں ہریانہ کے میوات میں اختتام ہوگا ۔ پسماندہ مسلمانوں کو بی جے پی سے جوڑنے کی قواعد نیشنل ایگزیکٹو کی میٹنگ جولائی 2022 میں نریندر مودی کے بیان کے بعد شروع ہوئی ۔ انہوں نے پسماندہ مسلمانوں کے پچھڑے پن کا ذکر کرتے ہوئے فلاحی اسکیموں کے ذریعہ سب سے محروم طبقات تک پہنچنے پر زور دیا تھا ۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ 200 سے زیادہ اضلاع اور 22000 سے زیادہ گاؤں میں قبائل کو سہولیات فراہم کرنی چاہئے ۔ اقلیتوں میں خاص طور پر مسلمانوں میں پسماندہ مسلمان ہیں ۔ ہمیں انہیں فائدہ کیسے پہنچانا ہے حکومت یہ سوچ رہی ہے ۔ کیونکہ آزادی کے اتنے سال بعد بھی وہ کافی پیچھے ہیں ۔
بی جے پی کی نیشنل ایگزیکٹو حیدرآباد کی میٹنگ میں بولتے ہوئے نریندرمودی نے پارٹی لیڈران سے پسماندہ مسلمانوں کی طرف پیار کا ہاتھ بڑھانے کو کہا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ یوپی میں پسماندہ مسلمانوں کی بڑی تعداد ہے ۔ جنہیں پارٹی کو پیار کے ساتھ گلے لگانا چاہئے ۔ وہیں انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ پوری ریاست میں "اسنیہ یاترا” نکالنی چاہئے ۔ ایک طرف وزیراعظم مسلمانوں کے ساتھ پیار کا رشتہ بنانے، ان کی ترقی کے لئے کام کرنے اور پارٹی سے جوڑنے کی بات کر رہے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف ہندو وادی تنظیموں آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، رام سینا، کرنی سینا، گئو رکشک دل بشمول بی جے پی لیڈران نے مسلمانوں خاص طور پر پسماندہ مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔ اخلاق، پہلو خان، رکبر خان، تبریز انصاری سے لے کر جنید تک موب لنچنگ کا شکار ہونے والے زیادہ تر پسماندہ مسلمان ہیں ۔ جن پھل، سبزی اور ضرورت کا سامان بیچنے والوں کا اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا ان میں اکثریت کا تعلق مسلم پسماندہ طبقہ سے ہے ۔ این آر سی، سی اے اے اور پولس کی موجودگی میں کھلے عام مسلمانوں کو مارنے، کاٹنے کے اعلانات سے سب سے زیادہ یہی طبقہ متاثر ہوتا ہے ۔ جھوٹے کیسوں میں پھسائے جانے، فرضی انکائونٹر اور فرقہ وارانہ فسادات میں ہندو شر پسندوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے بھی اسی طبقہ سے ہیں ۔ کھرگون سے جہانگیر پوری اور یوپی سے نوح تک بلڈوزر کا نشانہ بھی انہی کمزوروں کو بنایا گیا ہے ۔ پھر بھی بی جے پی ان کے ذریعہ اپنی انتخابی نیا پار لگانا چاہتی ہے ۔
پسماندہ وہ لوگ ہیں جو سماجی، تعلیمی اور اقتصادی طور پر پچھڑے ہوئے ہیں ۔ بی جے پی آنے والے لوک سبھا چناو میں مسلم ووٹروں کو اپنے حق میں کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا دم لگا رہی ہے ۔ لیکن وہ ان کے ساتھ 1950 سے ہو رہی نا انصافی کو دور نہیں کرنا چاہتی ۔ پسماندہ مسلمانوں کی درجن بھر ذاتوں کو شیڈولڈ کاسٹ کا درجہ ملنا چاہئے لیکن انہیں او بی سی میں رکھا گیا ہے ۔ آئین کی دفعہ 341 کے تحت ایس سی کا ریزرویشن ملتا ہے ۔ مگر اس کے ساتھ صدر جمہوریہ کا حکم نامہ جڑا ہوا ہے ۔ جس کی وجہ سے اسلام اور عیسائی مذہب کے ماننے والوں کو اس سے محروم رکھا گیا ہے ۔ جبکہ یہ بھی وہی کام کرتے ہیں جو ہندوؤں میں اچھوت سمجھی جانے والی ذاتیں کرتی ہیں ۔ صدر جمہوریہ کے آرڈر میں ترمیم کرکے سکھ اور بدھ مذہب کے ماننے والوں کو اس میں شامل کر لیا گیا ۔ بی جے پی اگر پسماندہ مسلمانوں کو اپنے ساتھ لانا چاہتی ہے تو اسے پسماندہ مسلمانوں کی ایس سی کا درجہ دینے والی برسوں پرانی مانگ کو مان لینا چاہئے ۔ لیکن ایسا نہیں لگتا کہ وہ اس مانگ کو مانے گی ۔ کیونکہ اسے ڈر ہے کہ ایسا کرنے سے کہیں ترمیم مذہب کے معاملوں میں تیزی نہ آجائے ۔ پسماندہ مسلم محاذ نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر اس مانگ کو پھر دوہرایا ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس مانگ کو مانے بغیر پسماندہ مسلمانوں کا بی جے پی کے ساتھ جانا مشکل ہے ۔
مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال میں نریندرمودی نے 27 جون 2023 کو مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پسماندہ مسلمانوں کا استحصال ہوا ہے ۔ آج بھی انہیں برابری کا درجہ نہیں ملا ہے ۔ ان کے مسائل پر گفتگو نہیں ہوتی ۔ انہوں نے موچی، بھٹیارا، جوگی، مداری، جولاہا، نائی، تیجا، لہری، ہلدر جیسی پسماندہ ذاتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ امتیاز برتا گیا ہے ۔ جس کا نقصان ان کی نسلوں کو بھگتنا پڑا ہے ۔ پسماندہ مسلمانوں کے ساتھ برتے گئے امتیاز کو دور کرنے کے لئے ٹھوس قدم اٹھانے کے بجائے انہوں نے پکا مکان، مفت ہیلتھ سہولت اور دانش آزاد انصاری کو وزیر بنانے کا ذکر کر مسلمانوں کے پاس جانے کی بات کہی ۔ واضح رہے کہ یوپی میں ایک پسماندہ مسلمان کو وزیر ضرور بنا یا گیا ہے لیکن مرکزی کابینہ میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے ۔ بلکہ پارلیمنٹ میں بھی برسراقتدار جماعت کا کوئی مسلم ممبر نہیں ہے ۔
مسلم پسماندہ محاذ کے صدر اور ثابق ممبر پارلیمنٹ علی انور کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت پسماندہ مسلمانوں کا ووٹ تو حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن ان کی مانگ کو ماننا نہیں چاہتی ۔ اگر مسلم پسماندہ کو ایس سی کا درجہ مل جائے گا تو ان پر ظلم کرنے والوں پر ایس سی ایس ٹی کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہون گے ۔ "دو ذات دو مذہب کو آپس میں لڑانے کی بی جے پی کی پرانی حکمت عملی ہے ۔ یہی کام وہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑا کر کرنا چاہتی ہے ۔ پسماندہ مسلمانوں کو باقی برادریوں سے کچھ دقتیں ضرور ہیں لیکن وہ ہم آپس میں سلجھا لیں گے مگر مودی سرکار کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے”۔ سوال یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم پسماندہ مسلمانوں کی تکلیفوں سے واقف ہیں تو پھر وہ انہیں دور کرنے کے بجائے صرف بات کا بھات کیوں کھلا رہے ہیں؟ دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان ان کی باتوں پر بھروسہ کریں گے یا پھر ووٹ دیتے وقت تمام حالات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں گے ۔
گیسٹ کالم
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی