کس قدر تشویشناک صورت حال ہے کہ ایک جمہوری ملک میں جہاں کا آئین ببانگ دہل یہ اعلان کرتا ہے کہ سرکار عوام کے ذریعہ ،عوام کی اور عوام کے لئے کام کریگی ۔لیکن پھر بھی اس ملک کی آدھی آبادی کی نمائندگی بین الاقوامی سطح پر کرنے والی ریسلرس کو جن میں دو اولمپک میڈلسٹ اور ایک عالمی چیمپئن بھی شامل ہیں، بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کی جانب سے ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر کی حیثیت سے اپنے دور میں خواتین ریسلرز کو مبینہ طور پر جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف احتجاج کرنے کے باوجود انصاف نہیں مل رہا ہے ۔حالانکہ ملزم نے اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے اس احتجاج کو اپنے خلاف ایک سازش قرار دیا ہے لیکن اس کے اس بیان کی کوئی اہمیت اس لئے نہیں ہے کہ ریسلرس اپنے الزامات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔اور باضابطہ دھرنے پر بیٹھی ہیں ۔
مظاہرین نے جنوری 2023 میں جنتر منتر، نئی دہلی میں برج بھوشن کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات کو عام کرتے ہوئے ایک دھرنا دیا تھا اور اس یقین دہانی کے بعد کہ مرکزی حکومت الزامات کی جانچ کے لیے ایک کمیٹی بنائے گی، جنوری 2023 میں احتجاج ختم کر دیا تھا ۔کمیٹی کی رپورٹ 5 اپریل 2023 کو پیش بھی کی گئی لیکن اسے عام نہیں کیا گیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ مظاہرین نے 23 اپریل 2023 کو حکام پر بے عملی کا الزام لگاتے ہوئے اپنا احتجاج دوبارہ شروع کر دیا ۔
دہلی پولیس – جو بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت کے ماتحت ہے جس سے ملزم کا تعلق ہے – نے الزامات کے قابل ادراک ہونے کے باوجود طویل عرصے تک عدم فعالیت کے بعد سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد ہی ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔
مظاہرین برج بھوشن کی گرفتاری اور الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور حکومت پر برج بھوشن سنگھ کو بچانے کی کوشش کرنے کا الزام لگا رہے ہیں کیونکہ وہ حکمران جماعت سے ہیں۔ کورٹ میں احتجاج کرنے والے پہلوانوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل کپل سبل نے بھی تحقیقات کی شفافیت پر شک ظاہر کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ دونوں کو اپوزیشن جماعتوں اور مظاہرین نے اس معاملے پر خاموش رہنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ لیکن سرکار اپنی ضد پر قائم ہے اور وہ برج بھوشن سنگھ سے استعفہ لینے کو تیار نہیں ۔اس دوران احتجاجی مظاہرین کو ملک بھر میں بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہوئی ہے، بشمول اپوزیشن جماعتوں کے سیاست دانوں اور بی جے پی کے چند رہنماؤں،ہندوستانی کھلاڑیوں اور کسان یونینوں کی جانب سے۔
28مئی اتوار کے روز اس احتجاج نے ایک نیا رخ اس وقت اختیار کر لیا جب جنتر منتر سے محض ایک کیلومیٹر دور پارلیامنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کرنے خود وصیر اعظم نریندر مودی تشریف لائے اور پہلے سے اعلان شدہ اس پروگرام کے موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے احتجاجی گروہ نے پارلیامنٹ کی نئی عمارت کے باہر پہنچنے کا فیصلہ کیا لیکن دہلی پولیس جس نے اس پورے علاقہ کو پہلے ہی پولیس چھاؤنی بنا دیا تھا نے تمام مظاہرین کو زبر دستی ڈیٹین کر لیا اور وہاں سے دور لے گئی ۔
خبر یہ بھی ملی کہ 28تاریخ کو ان مظاہرین کی حمایت کے لئے اتر پردیش اور ہریانہ سے ہزاروں کی تعداد میں کسانوں کا جتھا بھی نکل پڑا ت لیکن دہلی بارڈر پر ہی انہیں پولیس نے روک دیا اور انہیں دہلی میں داخل نہیں ہونے دیا ۔
اس پورے معاملے کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ایک طرف حکومت نئے پارلامنٹ کی عمارت کا افتتاح کر رہی ہے ۔جہاں آئین کی بالا دستی کو یقینی بنانے کے لئے قوانین بنائے جاتے ہیں ،اور دوسری طرف ملک کی ناموس کو برقرار رکھنے والی ریسلرس خواتین قانون اور انصاف کی دہائی دے رہی ہیں لیکن خود قانون کے محافظ ان کے ساتھ زور زبردستی کر رہے ہیں اور انہیں آئین کے دائرے کے اندر رہ کر احتجاج کرنے کی اجازت بھی نہیں دے رہے ہیں ۔اب اس پر یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ اینٹ اور گارے سے بنی پارلیامنٹ کی وہ عمارت اہم ہے یا ملک کا نام بین الاقوامی سطح پر روشن کرنے والی ان ریسلرس کی عصمت جس کو برسر اقتدار جماعت کے ایک ممبر کے ذریعہ تار تار کرنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے ۔فیصلہ آپ کو کرنا ہے ۔