واشنگٹن (ہ س)۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کی شب ایران پر حملے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ انہوں نے حملہ کرنے یا نہ کرنے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے اسرائیل کی فضائی مہم میں شامل ہونے یا نہ ہونے کا باقاعدہ فیصلہ بھی نہیں کیا۔ امریکہ کے ’سی بی ایس نیوز‘ چینل نے یہ دعویٰ 18 جون کو نشر ہونے والی اپنی رپورٹ میں ایک سینئر انٹیلی جنس ذرائع اور محکمہ دفاع کے ایک اہلکار کے حوالے سے کیا ہے۔سی بی ایس نیوز کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے کہا کہ اگر تہران اپنے جوہری پروگرام کو ترک کرنے پر راضی ہوتا ہے تو امریکہ حملہ نہیں کرے گا۔ ٹرمپ نے یہ بات حملے کے منصوبے کی منظوری دیتے ہوئے کہی۔ چینل کے مطابق یہ خبر سب سے پہلے دی وال اسٹریٹ جرنل نے دی تھی۔ وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر اس پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔سی بی ایس نیوز کے مطابق ٹرمپ ایران کے فورڈو زیر زمین یورینیم افزودگی کی تنصیب پر امریکی حملے پر غور کر رہے تھے۔ اسرائیل نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں ایرانی جوہری اور فوجی تنصیبات پر بمباری شروع کرنے کے بعد سے اب تک فورڈو ںپر حملہ نہیں کیا ہے۔ ٹرمپ نے بدھ کے روز صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے ابھی تک ایران پر حملے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں حتمی فیصلہ وقت سے ایک سیکنڈ پہلے کرنا چاہتا ہوں کیونکہ حالات بدل جاتے ہیں، خاص طور پر جنگ سے۔’’میں یہ کر سکتا ہوں، شاید میں یہ نہ کروں۔ میرا مطلب ہے، کوئی نہیں جانتا کہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں۔‘‘ انھوں نے بدھ کے اوائل میں کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے ایک معاہدے پر بات چیت کرے۔ایران نے بدھ کو کہا کہ وہ دباو میں آکر مذاکرات نہیں کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ وہ کسی بھی خطرے کا جواب پوری مضبوطی کے ساتھ دے گا۔ امریکی انٹیلی جنس کے ایک سینیئر اہلکار اور پینٹاگون کے ایک اہلکار کے مطابق،، اگر امریکہ اسرائیل کی مہم میں شامل ہوتا ہے تو ایران نے مشرق وسطیٰ میں امریکی اڈوں پر حملہ کرنے کے لیے میزائل اور سازوسامان تیار کر لیا ہے۔یو ایس ٹوڈے اخبار کے مطابق پینٹاگون کے پاس ایران پر ممکنہ حملے کی تیاری کے لیے مشرق وسطیٰ میں پہلے ہی کم از کم 40 ہزار فوجی موجود ہیں۔ یہ فوجی اس وقت بحرین سے شام اور اس کے درمیان کے مقامات پر تعینات ہیں۔ اگر امریکہ ایران کی جوہری تنصیبات پر جاری حملے میں اسرائیل کا ساتھ دیتا ہے تو یہ فوجی ایرانی بیلسٹک میزائلوں، ڈرونز یا دہشت گردی کے جوابی حملوں کو روکنے میں مدد کریں گے۔